کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 375
ہوئے فلسطین کے راستے حملہ آور ہوں ۔ ان کے بعد آئے ہوئے قبائل کی ایک فوج مرتب کر کے یزید بن ابی سفیان کو سردار بنا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ تم دمشق کی طرف جا کر حملہ آور ہو۔ پھر ایک فوج ترتیب دے کر اس کا سردار سیّدنا ابوعبیدہ بن الجراح کو بنایا اور حکم دیا کہ تم حمص کی جانب جا کر حملہ کرو۔ اسی عرصہ میں شرجیل بن حسنہ عراق کی طرف سے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک اور لشکر مرتب فرما کر اس کا سردار شرجیل بن حسنہ کو مقرر فرما دیا اور حکم دیا کہ تم اردن کی جانب سے حملہ کرو، اس طرح صدیق اکبر نے چار لشکر مرتب فرما کرچار مختلف راستوں سے ماہ محرم ۱۳ ھ میں روانہ کیے کہ ملک شام پر حملہ آور ہوں ۔ جب یہ چاروں لشکر حدود شام میں پہنچے اور ہرقل کو اس کی اطلاع ملی کہ عربوں نے چار حصوں میں منقسم ہو کر چار مقامات پر حملہ آوری کا قصد کیا ہے تو اس نے بھی اپنے چار سپہ سالاروں کو چار عظیم الشان لشکر دے کر الگ الگ روانہ کیا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے واسطے اس نے اپنے حقیقی بھائی تذارق کو نوے ہزار فوج دے کر فلسطین کی طرف روانہ کیا۔ جرجہ بن نوذیہ کو چالیس ہزار فوج دے کر یزید بن ابی سفیان کے مقابل دمشق کی سمت بھیجا۔ راقص نامی سردار کو پچاس ہزار فوج کے ساتھ شرجیل بن حسنہ کے مقابلہ پر اردن کی جانب اور رفیقاء بن نسطورس کو ساٹھ ہزار سوار کی جمعیت کے ساتھ ابوعبیدہ بن الجراح کے مقابلہ کو حمص کی طرف روانہ کیا۔ ہرقل نے اپنے چاروں سرداروں کے ماتحت کل دو لاکھ چالیس ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کی، حالانکہ مسلمانوں کے چاروں لشکروں کا مجموعہ تیس ہزار کے قریب تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہرقل نے کیسی زبردست تیاریاں مسلمانوں کے استیصال کی پہلے سے کر رکھی تھیں ، لیکن اس میں شک نہیں کہ خود ہرقل اپنی ذات سے اس بات کا خواہش مند نہ تھا کہ ضرور مسلمانوں سے لڑے اور وہ تو لڑائی کو ٹالنا اور جہاں تک ممکن ہو مسلمانوں سے بے تعلق رہنا چاہتا تھا، لیکن اس کے تمام درباری، تمام امراء، تمام سردارن فوج، اور تمام صوبیدار ہمہ تن آمادہ و مستعد تھے کہ ملک عرب پر حملہ کیا جائے، اس مطلب کو ان الفاظ میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے کہ ہر قل تو لڑائی پر آمادہ نہ تھا، لیکن رومی گورنمنٹ