کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 374
کی مرکزی قوت کے لیے کسی اندرونی فتنہ کا اندیشہ باقی نہ رہے، اندریں صورت کہا جا سکتا ہے کہ فتنۂ ارتداد بھی اسلامی فتوحات کا ایک بہت بڑا سبب تھا اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تدبیرو رائے نے اسلامی عظمت و شوکت کی نشوونما کے لیے وہ کام کیا جو ایک تجربہ کار اور ہوشیار مالی اپنے باغیچہ کی سرسبزی کے لیے کر سکتا ہے۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے، لیکن وہ راستے سے صدیقی ہدایت کے موافق جس قدر مسلمان ہو سکے اپنے ہمراہ لیتے گئے، خالد بن ولید کو حکم دیا گیا تھا، کہ جہاں تک ممکن ہو سکے مرتدین کو درست کرنا اور عیسائی لشکر مقابلہ پر آئے، تو حتی الامکان جنگ چپا دل سے کام لینا، میدان داری اور جم کر مقابلہ کرنے سے پرہیز کرنا، ایسا حکم دینے کی وجہ یہی تھی کہ، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سب سے اوّل عرب کو قابو میں لا چاہتے تھے، اور جب تک فتنہ ارتداد مکمل فرو نہ ہو جائے، اس وقت تک ہرقل و کسریٰ کی فوجوں سے لڑائی چھیڑنا مناسب نہ سمجھتے تھے، جس طرح دوسرے سرداران لشکر کے ساتھ دربار خلافت سے سلسلہ خط و کتابت جاری تھا، اسی طرح خالد بن ولید کی نقل و حرکت سے بھی صدیق اکبر با خبر تھے اور برابر خالد بن ولید کے پاس مدینہ منورہ سے احکام پہنچتے رہے۔ ہر قل نے اسلامی لشکر کے حدود شام میں ہونے کی خبر سن کر اوّل سرحدی قبائل اور سرحدی رؤساء کو مقابلہ کے لیے ابھارا، لیکن جب یہ چھوٹے چھوٹے رئیس اور عرب مستنصرہ کے قبائل اسلامی لشکر کے مقابلہ میں مغلوب ہوتے گئے تو قیصر روم ہرقل نے ماہان نامی رومی کو ایک لشکر عظیم کے ساتھ آگے بڑھایا، جب عیسائی اور اسلامی فوجوں کا مقابلہ ہوا تو ماہان کے لشکر کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کے ہاتھ بہت سا مال غنیمت آیا۔ اس شکست کا حال سن کر ہرقل خود قسطنطنیہ سے روانہ ہو کر ملک شام میں آیا اور تمام فوجوں کو جمع کر کے لڑائی کا اہتمام اس نے براہ راست اپنے ہاتھ میں لیا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خط سے یہ تمام کیفیت صدیق اکبر کو معلوم ہوئی جس کا ان کو پہلے سے اندازہ تھا۔ اتفاقاً جس روز یہ خط مدینہ میں پہنچا ہے اسی روز عکرمہ بن ابی جہل اپنی مہم سے فارغ ہو کر مدینہ میں پہنچے تھے، ساتھ ہی ملک کے ہر حصہ سے لڑائی کے لیے آمادہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار ہوکر قبائل آنے شروع ہو گئے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو فوراً خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کر دیا، ان کے بعد سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر دے کر روانہ کر دیا کہ خالد بن ولید اور ان کے ہمراہیوں کو ساتھ لیتے