کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 373
لیکن ان تمام خالدی کارناموں کی ایک روح ہے، اس روح کو بھی ہمیں تلاش کر لینا چاہیے، وہ روح انتخاب صدیقی، تربیت صدیقی اور ہدایات صدیقی ہیں ، مدینہ منورہ اور لشکر اسلام کے درمیان برابر سلسلہ خط و کتابت ہمیشہ جاری رہتا، اور ہر ایک واقعہ کی خبر جلد از جلد خلیفتہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتی تھی، اسی طرح معمولی معمولی باتوں کے متعلق خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدایات پہنچتی رہتی تھیں ۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ملک شام میں : ایرانیوں کی جانب سے کسی قدر اطمینان ہو چکا تھا، اور امید نہ تھی کہ اب جلد وہ مدینہ منورہ میں فوج کشی کے خواب دیکھیں گے، جس وقت عرب کے ہر ایک حصہ میں فتنۂ ارتداد فرو ہو گیا اور ایرانی خطرہ کی اہمیت بھی کسی عجلت کی متقاضی نہ رہی، تو اب سب سے مقدم اور سب سے زیادہ اہم ملک شام کا انتظام اور اس طرف سے رومی و غسانی خطرہ کی روک تھام تھی۔ شرجیل بن عمروغسانی بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کو شہید کر دیا تھا جس کے بعد جنگ موتہ ہوئی، پھر رومیوں اور غسانیوں نے ملکر مدینہ منورہ پر فوج کشی کی تیاریاں کیں ، جس کا حال سن کر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوج لے کر تبوک تک تشریف لے گئے،مگر اس وقت تک عیسائی پورے طورپر اتنے بڑے عربی و اسلامی لشکر کے مقابلہ کی جرات نہ کر سکے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرحد شام پر رعب ڈال کر واپس تشریف لے آئے، اس کے بعد پھر خبر پہنچی کہ سرحد شام پر فوجی تیاریاں ہو رہی ہیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا، جو بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سرحد شام کی طرف گئے، اور جو مقابل ہوا اس کو شکست دے کر جلدی سے واپس چلے آئے، کیونکہ فتنہ ارتداد کا اندرون ملک میں خوب زور و شور تھا۔ فتنۂ ارتداد کی روک تھام کے لیے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب گیارہ لشکر تیار کر کے روانہ کیے تو ان میں سے ایک لشکر سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دے کر حکم دیا کہ تم سرحد شام کی طرف جاؤ، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بھی شامی خطرہ کو محسوس کیے ہوئے تھے اور انہوں نے فتنہ ارتداد کے فرو کرنے میں شامی خطرہ کو بخوبی پیش نظر رکھا تھا، جب ارتداد سے اطمینان ہو گیا تو انہوں نے سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو عراق کی طرف متوجہ کر دیا کہ ایرانی خطرہ کی طرف سے اطمینان حاصل ہو، اور ملک عرب کے ہر حصے میں ایلچی بھیج کر لڑائی کے لیے جنگی سپاہیوں کو طلب کیا، مدعا یہ تھا کہ عرب کی متحدہ طاقت سے رومی اور ایرانی شہنشاہیوں کا مقابلہ کیا جائے، تاکہ ہمیشہ کے لیے عیسائیوں ، مجوسیوں کے خطرہ سے عرب کو نجات ملے، دوسرے عرب کے جنگجو قبائل جو خاموش بیٹھنے کے عادی نہ تھے، ان کو ہر حصہ ملک سے طلب کر کے غیر مسلم دشمنوں کے مقابلہ میں شام و عراق کی طرف بھیج دیا جائے، تاکہ عرب کے اتحاد و قوت اور اسلام