کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 372
جنگ فراض: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فراض میں پہنچ کر لڑائی کی تمہید ڈال دی، یہ مقام دریائے فرات کے کنارے تھا، دوسری طرف رومی لشکر خیمہ زن تھا، رومی لشکر نے پیغام بھیجا کہ یا تو تم دریائے فرات کے اس طرف آ جاؤ، یا ہم کو اس طرف عبور کرنے دو، تاکہ ہمارے تمہارے دو دو ہاتھ ہوں ، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تم ہی اس طرف آ جاؤ، چنانچہ رومی لشکر دریا کو عبور کر کے اسلامی لشکر کے مقابل ہوا۔ اسلامی لشکر مسلسل سفر اور لڑائیوں سے چور چور ہو رہا تھا، رومی بالکل تازہ دم تھے تعداد کے اعتبار سے بھی وہ آٹھ دس گنے تھے، لڑائی شروع ہوئی، تمام دن ہنگامہ کار زار گرم رہا، بالآخر رومی لشکر کو شکست فاش نصیب ہوئی، اور وہ میدان میں ایک لاکھ لاشیں چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگے، اس لڑائی سے فارغ ہو کر ۲۵ ذیقعدہ ۱۲ ھ کو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شجرہ بن الاغر کے ہمراہ تمام لشکر کو حیرہ کی جانب واپس روانہ کیا اور خود چند ہمراہیوں کو لے کر مقام فراض سے روانہ ہوئے، اور مکہ معظمہ میں پہنچ کر حج بیت اللہ میں شریک ہوئے۔ حج سے فارغ ہو کر فوراً حیرہ کی جانب چل دیے، حیرہ میں پہنچ کر جب آپ شریک ہوئے ہیں تو کسی شخص کو اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوا کہ یہ حج کر کے آئے ہیں اتفاقاً یہ خبر چھپی نہ رہ سکی، اور رفتہ رفتہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے کانوں تک پہنچی، انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو آئندہ اس قسم کی حرکات سے منع کیا، اور کسی قدر اظہار ناراضگی بھی کیا، اس سال سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بھی حج بیت اللہ ادا فرمایا اور اپنی جگہ مدینہ منورہ میں سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مدینے کا عامل بنایا، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ میں واپس آکر وہاں کے چند چھوٹے چھوٹے مقامات پر جو باقی رہ گئے تھے قبضہ کیا۔ سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ ماہ ربیع الاول ۱۳ ھ تک علاقہ حیرہ میں رہے جبکہ آخر محرم ۱۲ ھ میں وہ اس علاقہ میں داخل ہوئے تھے، اس قلیل مدت میں ان کو قدم قدم پر دشمنوں کا مقابلہ پیش آیا، اور بیسیوں خوں ریز و عظیم لڑائیاں لڑنی پڑیں ، ہر ایک لڑائی میں ان کی فوج کم اور دشمنوں کی فوج کئی گنا ہوتی تھی، ہر ایک لڑائی میں انہیں کو فتح نصیب ہوئی کسی موقع پر بھی ان کو شکست و ہزیمت حاصل نہیں ہوئی، ایرانیوں کی مفرور اور دشمن قوم کے دل پر ان کے قوت بازو اور عزم و استقلال کی بدولت عربوں کی دھاک بیٹھ گئی، اس قلیل مدت میں انہوں نے جس قدر وسیع ملک اور مختلف زبردست قبائل کو تسخیر کیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں بہ آسانی دستیاب نہ ہو سکے گی، اس معاملہ میں ہم مجبور ہیں کہ سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بے نظیر شجاعت اور قابلیت سپہ سالاری پر درود و سلام بھیجیں ۔