کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 369
قلعہ چھوڑ کر بلا مقابلہ فرار ہو گیا، عقبہ کی بھاگی ہوئی فوج نے ایرانیوں سے قلعہ خالی دیکھ کر فوراً قلعہ کے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا اور اس طرح قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے، چار روز کے محاصرہ کے بعد قلعہ پر بھی اسلامی لشکر کا قبضہ ہوا، عیسائی عرب جو مجوسیوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے مقتول ہوئے، اور مال و اسباب پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ بالائی عراق اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ حکم صدیقی کے موافق عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے بالائی عراق پر حملہ کیا تھا، سیّدنا خالد بن ولید کو تو بہت جلد قبائل و روسا سے گزر کر ایرانی سرداروں اور ایرانی فوجوں سے مقابلہ پیش آگیا تھا، اگرچہ عرب سردار اور عیسائی قبائل بھی برسر مقابلہ تھے لیکن وہ ایرانیوں سے جدا نہ تھے، سیّدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ جو بالائی عراق پر حملہ آور ہوئے تھے ان کو ابھی تک عیسائی خود مختار رؤسا سے فرصت نہیں ملی تھی، وہ جس علاقہ میں مصروف کار تھے وہ علاقہ عراق ، جزیرہ، ایران اور شام کا مقام اتصال تھا اور اسی لیے ان کی معرکہ آرائیوں کا اثر جس قدر دربار ایران پر پڑ سکتا تھا، اسی قدر دربار ہرقل پر بھی پڑ رہا تھا، جس زمانہ میں سیّدنا خالد ولید رضی اللہ عنہ نے عین التمر کو فتح کیا اسی وقت سیّدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ عرب کے مشرک و نصرانی قبائل کو زیر کرتے ہوئے دومتہ الجندل کے حکمرانوں سے برسر مقابلہ تھے۔ علاقہ دومۃ الجندل میں دو رئیس تھے ایک اکیدربن عبدالملک (جس کا ذکر اوپر حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات میں آ چکا ہے) دوسرا جودی بن ربیعہ، یہ دونوں رئیس متفق و متحد ہو کر عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں صف آراء تھے اور انہوں نے اردگرد کے تمام نصرانی قبائل کو اپنے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ میں شریک و متحد کر لیاتھا، عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کا ایک خط عین التمر میں سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا کہ ہماری مدد کو پہنچئے، دشمن کی بڑی تعداد و قوت کا مقابلہ ہماری نہایت ہی قلیل جمعیت سے شاید نہ ہو سکے۔ فتح دومتہ الجندل: سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو حیرہ میں اپنا نائب بنا کر بلا توقف دومۃ الجندل کی جانب روانہ ہوئے، سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ کے آنے کی خبر سن کر اکیدربن عبدالملک نے جودی بن ربیعہ اور دوسرے نصرانی سرداروں سے کہا کہ مسلمانوں سے صلح کر لینی چاہیے، لیکن انہوں نے اس رائے کو ناپسندکیا، اکیدران کا ساتھ چھوڑ کر تنہا نکل کھڑا ہوا، اس کے اس طرح جدا ہو کر جانے کی خبر مسلمانوں کو بھی لگ گئی، ایک چھوٹے سے دستہ فوج نے اس کو گرفتار کرنا چاہا مگر وہ لڑ کر ہلاک ہوا۔ دومۃ الجندل کے قریب پہنچ کر سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اوّل یہ تحقیق کی کہ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ