کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 367
شہر والے عاجز ہو گئے تو حیرہ کا رئیس عمروبن عبدالمسیح مع دوسرے رؤساء کے سیّدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ایرانی سردار اور ایرانی لشکر جو حیرہ میں موجود تھا ارد شیرکسریٰ کی موت کا حال سن کر پہلے ہی فرار ہو چکا تھا ، عبدالمسیح نے قریباً دو لاکھ روپیہ خراج ادا کر کے صلح کر لی، فتح حیرہ کے بعد سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ضرار بن الازور، ضرار بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ ، مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ ، عیینہ بن الشماس رضی اللہ عنہ وغیرہ سرداران لشکر کو حیرہ کے اطراف و جوانب میں چھوٹے چھوٹے فوجی دستوں کے ساتھ روانہ کیا، ہر ایک قبیلہ اور ہر ایک بستی نے جزیہ یا اسلام قبول کیا اور اس طرح دجلہ تک کا تمام علاقہ سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر فتح ہو گیا، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حیرہ میں مقیم رہ کر اردگرد کی مہمات کا اہتمام و انصرام فرماتے رہے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا پیغام: حیرہ سے سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ایک خط ایرانی رؤساء کی طرف روانہ کیا اور منشور عام عراق کے ان امراء کے نام بھیجا جو زمینداروں ، یا جاگیرداروں کی حیثیت رکھتے اور ابھی تک مطیع و منقادنہ ہوئے تھے، ایرانی رؤسا کے نام جو خط انہوں نے بھیجا تھا اس میں لکھا تھا کہ: امابعد! تمام تعریف اس اللہ تعالیٰ کو ہے جس نے تمہارے نظام میں خلل ڈال دیا اور تمہارے مکر کو سست کر دیا، اور تمہارے اتحاد کو توڑ دیا، اگر ہم اس ملک پر حملہ آور نہ ہوتے تو تمہارے لیے برائی ہوتی، اب بہتر یہ ہے کہ تم ہماری فرماں برداری کرو ہم تمہارے علاقے چھوڑ دیں گے اور دوسری طرف چلے جائیں گے، اگر تم ہمارے مطیع نہ ہوئے تو پھر تم کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا جو موت کو ایسا دوست رکھتے ہیں جیسے تم زندگی کو محبوب رکھتے ہو۔‘‘دوسرے منشور عام کا یہ مضمون تھا کہ: ’’تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے تمہاری شیخی کرکری کر دی اور تمہارے اتفاق کو توڑ دیا اور تمہاری شان و شوکت مٹا دی، پس تم اسلام قبول کرو کہ سلامت رہو گے یا ہماری حفاظت میں آ کر ذمی بن جاؤ اور جزیہ ادا کرو، ورنہ میں ایسی قوم تم پر لایا ہوں جو موت کو ایسا عزیز رکھتی ہے جیسا تم شراب خوری کو محبوب رکھتے ہو‘‘ ان خطوط و فرامین کا یہ اثر ہوا کہ دربار ایران میں جو بادشاہ کے متعلق جھگڑے پڑے ہوئے تھے وہ فوراً سلجھ گئے اور امیران در بار فوراً اپنا ایک بادشاہ منتخب کر لینے میں متفق ہو گئے، تاکہ اہل عرب کا تدارک دل جمعی کے ساتھ بہ آسانی ہو سکے۔