کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 364
عرب کی تھی کہ اس میں بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں عربوں کی تھیں جن میں سے اکثر ایرانی شہنشاہی کے ماتحت اور بعض ایرانی دربار سے گورنر مقرر ہو کر آتے اور حکومت کرتے تھے۔ مسلمانوں کی حکمت عملی سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جب لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کو شام کی طرف روانہ کیا تھا تو وہ ایرانیوں سے غافل نہ تھے، انہوں نے اس خطرناک حالت اور ان تشویش افزا ایام میں جب کہ خود مدینہ منورہ کی حفاظت اور ملک عرب کے صوبوں میں فتنہ ارتداد کے مٹانے کے لیے فوجوں کی بے حد ضرورت تھی، ایک چھوٹا سا دستہ مذکورہ بالا گیارہ لشکروں کی روانگی سے پہلے مثٰنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ شیبانی کی سرداری میں عراق کی جانب روانہ کر دیا تھا اور مثنیٰ کو حکم دیا تھا کہ عراق میں پہنچ کر کسی جگہ بھی جم کر لڑائی کی تمہید نہ ڈالیں بلکہ بطریق چپاول چھاپے مارتے اورعراق کے رئیسوں کو ڈراتے رہیں ،اس سے مدعا سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ جب تک ملک عرب کا فتنہ ارتداد فرد ہو اس وقت تک ایرانیوں کو ملک عرب پر حملہ آور ہونے کی جرات نہ ہو سکے اور وہ مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے پورے طور پر واقف نہ ہو سکیں ، یہی مقصد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ رومی لوگوں کو عرب کی جانب حملہ آور ہونے کی یکایک جرات نہ ہو سکے۔ جب نجد و یمامہ کے حالات قابو میں آگئے تو سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو جو نجد میں مقیم تھے لکھا کہ ان مسلمانوں کو جو مرتد نہیں ہوئے اور اسلام پر بدستور قائم رہے اپنے ہمراہ لے کر بالائی عراق پر حملہ آور ہوں اور سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جو یمامہ میں مقیم تھے لکھا کہ اپنا لشکر لیے ہوئے زیریں عراق کی طرف متوجہ ہوں ، راستہ میں جو قبائل یا رؤسا آتے وہ بطیب خاطر مسلمان ہوتے یا اسلامی سیادت میں داخل ہوتے گئے، حکم صدیقی رضی اللہ عنہ کی تصریح کے موافق مقام ابلہ میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دونوں آ کر مل گئے۔ جنگ ذات السلاسل: سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مقام ابلہ میں تمام اسلامی لشکر کی موجودات لی توکل اٹھارہ ہزار آدمی تھے، آپ کے سامنے عراق کا وہ ایرانی صوبہ تھا، جس کا نام حفیر تھا، اور دربان ایران سے اس صوبہ کا گورنر ہرمز نامی ایک نہایت دلیر و جنگ جو سردار مقرر تھا، اس ہرمز کی دھاک تمام عرب و عراق اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی، کیونکہ وہ جنگی بیڑہ لے کر ساحل ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوا کرتا تھا، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ہرمز کے نام ایک خط اتمام حجت کے لیے لکھا اور اسلام کی طرف دعوت دی، ہرمز نے اس خط کو پہنچتے