کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 363
اسلامی طاقت کے نظارے دیکھ چکی تھیں اور اصول اسلامی سے واقف ہو کر اسلام کی طرف مائل نظر آتی تھیں ہرقل کولڑائی کے لیے اقدام میں تامل تھا، وہ خود بھی اسلامی صداقت کا دلی طور پر معترف تھا، لہٰذا ایک طرف مسلمانوں کی ترقی اس کے زوال سلطنت کا پیغام تھا اور وہ مسلمانوں کی طاقت کو پیش ازخطرہ مٹا دینا چاہتا تھا، دوسری طرف چونکہ اس کو انجام اور نتیجہ مشتبہ نظر آتا تھا لہٰذا آئندہ بہترین موقع کے انتظار میں وہ جنگ کو ٹالتا رہا، بہرحال وہ ہرقل جو ایرانیوں کی عظیم الشان شہنشاہی کو نیچا دکھا چکا تھا وہ ہمہ تن اسلامی طاقت کے برباد کرنے کی طرف متوجہ تھا اور کسی مناسب موقع کو ہاتھ سے گنوا دینے والا نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو تمام ملک عرب میں بد امنی اور ہلچل پیدا ہوئی تو ایک طرف ایرانیوں نے اور دوسری طرف رومیوں نے ان خبروں کو بڑے اطمینان و مسرت کے ساتھ سنا، دنیا میں پہلی ہی مرتبہ تمام براعظم و عرب نے ایک سلطنت اور ایک متحد طاقت کی شکل میں اپنے آپ کو جلوہ افروز کیا تھا اور اسی لیے رومیوں اور ایرانیوں کے درباروں نے اس ملک کو غور و التفات اور فکر و تردد کی نگاہ سے دیکھا تھا اور یہ دونوں حکومتیں بجائے خود الگ الگ اس جدید عربی طاقت، یعنی حکومت اسلام کو مٹا دینے اور فنا کر دینے پر آمادہ تھیں ، وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے ساتھ ہی ارتداد کی خبروں نے ان دونوں حکومتوں کو بتا دیا تھا کہ ملک عرب کے پامال کرنے اور آئندہ خطرات کے مٹا دینے کا یہ بہترین وقت ہے، چنانچہ ایک طرف ہرقل کی فوجیں شام میں اور دوسری طرف ایران کی فوجیں عراق میں جمع ہونے لگیں ۔[1] سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی مآل اندیشی، ژرف نگاہی، موقع شناسی اور مستعدی کا اس طرح بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے فتنہ ارتداد کو جلد سے جلد مٹایا اور اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد ایک دن بھی ضائع کیے بغیر فوراً رومیوں اور ایرانیوں کے روکنے اور مدافعت کرنے کے لیے تمام ملک عرب کو آمادہ کر دیا، اگر سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چند روز اور فتنہ ارتداد کو مٹانے پر قادر نہ ہوتے یا فتنہ ارتداد کے مٹ جانے کے بعد چند روز تساہل اور تامل میں گزار دیتے تو مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی دارالخلافت اسلام رومیوں یا ایرانیوں کے محاصرہ میں آ کر مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہوتا، حیرت ہوتی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیسا سخت و اہم کام کیسے نازک و محدود وقت میں کس احتیاط اور کس خوبی کے ساتھ انجام دیا اور اسلام کی روحانی و مادی حالت اور معنوی و ظاہری شان کو کس عظمت و جبروت کے ساتھ قائم رکھا۔ اب آگے رومیوں اور ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیاں شروع ہوتی ہیں ، جو حالت ملک شام کی تھی، کہ اس کے جنوبی حصہ میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں عرب مستنصرہ کی تھیں ، بالکل یہی حالت عراق
[1] اور الکفر ملۃ واحدۃ ’’تمام کفار ایک (متحدہ) ملت ہیں ۔‘‘ کی عملی صورت سامنے آ گئی۔