کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 362
لوگ زیادہ بہادر تھے اس لیے قیصر روم ان کے وجود کو زیادہ قیمتی سمجھتا اور ضرورت کے وقت ان کی جنگ جو یانہ قابلیتوں سے فائدہ اٹھایا کرتا تھا۔ ملک عرب میں جو ایک اسلامی سلطنت قائم ہو چکی تھی، اس اسلامی سلطنت اور قیصر روم کی سلطنت کے درمیان عرب مستنصرہ کی ریاستیں حد فاصل تھیں ، چونکہ یہ ریاستیں سب عیسائی مذہب رکھتی تھیں ، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ رومیوں اور عربوں کے درمیان توایک حد فاصل تھی، لیکن اسلامی سلطنت اور عیسائی حکومت کے درمیان کوئی حد فاصل نہ تھی، حیات نبوی میں جب عیسائی ریاستوں اور مسلمانوں کے درمیان مقابلہ و مقاتلہ کی نوبت پہنچی تو ایک طرف ان اعراب مستنصرہ نے ہرقل سے امداد کی درخواست کی، دوسری طرف منافقوں اور یہودیوں کی ریشہ دوانیوں نے دربار ہرقل کو مسلمانوں کی بیخ کنی پر آمادہ و مستعد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ میں ہرقل کے پاس خط بھیجا تھا اسی زمانہ میں بصری و دمشق کے رئیسوں کی طرف بھی خط روانہ کیے تھے لیکن ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچیوں کے ساتھ برا برتاؤ کیا تھا، چنانچہ بصری کے ماتحت حاکم شرجیل نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی سیّدنا حارث کو شہید کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو شرجیل بن عمرو غسانی سے سیّدنا حارث رضی اللہ عنہ کا انتقام لینے کے لیے روانہ کیا اور جنگ موتہ میں سیّدنا زید رضی اللہ عنہ سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ سیّدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، اور سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لڑائی کی حالت کو سنبھالا، اس جنگ میں ہرقل کی فوجوں نے شرجیل غسانی کی حمایت میں مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ رومیوں نے اس کے بعد ملک عرب پر چڑھائی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود چشمہ تبوک تک لشکر لے کر جانا پڑا، اس وقت رومی سامنے سے ٹل گئے اور کوئی بڑی لڑائی نہ ہوئی، بلکہ انہیں اعراب مستنصرہ کی ریاستوں سے جزیہ لے کر اور ان پر رعب قائم کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، تو خبر سنی کہ ہر قل ملک عرب پر حملہ کی تیاریاں کر رہا ہے اور سرحد شام پر فوجیں جمع ہو رہی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اس طرف روانہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کی وجہ سے یہ لشکر مدینہ کے باہر رکا رہا اور آخر سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہو کر اس لشکر کو روانہ کیا، یہ لشکر سرحد شام تک گیا اور وہاں کے سرکش و باغی رؤسا کو درست کر کے چلا آیا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس لیے مقابلہ پیش نہ آیا کہ رؤساء عرب مستنصرہ میں سے بعض بطیب خاطر اسلام کو حق سمجھ تسلیم کر چکے تھے اور ہرقل متامل تھا کہ یہ سرحدی ریاستیں اسلام میں داخل ہونے والی ہیں یا عیسائیت پر قائم رہ کر مسلمانوں کے مقابلہ پر مستعد ہونے والی ہیں ، محض ان ریاستوں کی وجہ سے جو کئی بار