کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 361
سلطنت پر جلوس کیا، چند روز کے بعد ارکان سلطنت نے اس کو قتل کر کے شیرویہ کی بہن اور خسرو پرویز کی بیٹی پوران کو تخت پر بٹھایا جو صرف ایک سال چند ماہ حکمران رہی، اسی کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ پوران کے بعد کئی نو عمر لڑکے اور عورتیں یکے بعد دیگرے تخت نشیں ہوئیں ، آخر میں یزدجرد[1] تخت نشیں ہوا جس کے زمانہ میں ایران پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، غرض جس روز سے خسرو پرویز نے نامہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاک کیا تھا اسی روز سے ایرانی سلطنت کا قصر رفیع قدرتی طور پر منہدم ہونا شروع ہوگیا تھا، اور ایران کے تخت پر بجائے ملک گیرو ملک دار عالی ہمت بادشاہوں کے، لڑکوں اور عورتوں نے قبضہ پا لیا تھا، ایرانی سلطنت کے قبضہ سے اس کا ایک صوبہ یعنی یمن کا ملک نکل چکا تھا۔ [2] اس لیے ایرانیوں کو مسلمانوں سے اور بھی عداوت ہو گئی تھی۔ ایرانی مشرک ہونے کی وجہ سے زیادہ متکبر اور مغرور تھے، لہٰذا وہ عربوں کو زیادہ حقیر سمجھ کر ان کی قوت و استقلال کی خبریں سن سن کر زیادہ بے چین اور مسلمانوں کے استیصال پر زیادہ آمادہ تھے، لیکن قدرت نے ان کو اس طرح اندرونی جھگڑوں اور بادشاہوں کے عزل و نصب کی مصیبتوں میں گرفتار کر دیا تھا کہ وہ ملک عرب کی طرف جلدی متوجہ نہ ہو سکتے تھے، منافقین مدینہ اور یہود ان مدینہ نے جو مدینہ سے جلاوطن ہوئے تھے، بہ تواتر دربار مدائن میں اپنے زبان آور چالاک ایلچی بھیج بھیج کر ایرانیوں کو مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے ابھارا تھا، دوسری طرف ان لوگوں نے ہرقل کے دربار میں بھی اس قسم کی کوششیں شروع کر رکھی تھیں ۔ ہرقل کا دربار چونکہ اندرونی جھگڑوں سے پاک تھا، لہٰذا ان کو وہاں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی، ملک شام کے جنوبی حصہ میں عرب قوم کے لوگ آباد تھے اور ان کی بہت سی چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں قائم تھیں ، عربی لوگ عیسائی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عرب مستنصرہ کے نام سے مشہور تھے، عرب مستنصرہ کی خود مختار ریاستوں سے ہرقل کے دوستانہ و ہمدردانہ تعلقات تھے، جب کبھی ان اعراب مستنصرہ کی ریاستوں پر ایرانیوں نے حملے کیے تھے تو قیصر قسطنطنیہ نے ان کی مدد وحفاظت پرآمادگی ظاہر کی، اس لیے یہ لوگ اور بھی مجبور تھے کہ اپنے آپ کو قیصر روم کی حمایت میں رکھیں ، چونکہ عربی النسل ہونے کے سبب یہ
[1] اسے ’’یزد گرد‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ [2] خسرو پرویز لعین، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ گرامی چاک کر کے اپنی سلطنت کی تباہی و بربادی کا خود سبب بن گیا تھا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک خسرو پرویز کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی کی ایک علامت تھا، لیکن بد بخت نے اسے چاک کر کے دشمنی اور نفرت کی انتہا کر دی تھی۔