کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 358
روم و ایران بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت دنیا میں دو سلطنتیں سب سے بڑی تھیں اور وہی گویا تمام قابل تذکرہ دنیا پر چھائی ہوئی تھیں ، ایک روم کی سلطنت، اور دوسری ایرانی شہنشاہی، اس وقت دنیا میں صرف دو ہی تمدن تھے، آدھی دنیا پر رومی تمدن چھایا ہوا تھا اور آدھی پر ایرانی، ملک عرب تو بالکل کسمپرسی اور تاریکی کے عالم میں پڑا ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور اسلام کے ذریعہ ایک نئی سلطنت اور نئے تمدن کی ابتدا ہوئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ عربی یا اسلامی سلطنت کے مقابلے میں رومی و ایرانی سلطنتیں اور رومی و ایرانی ہوا ہو کر فنا ہو گئے اور ساری دنیا اسلامی حکومت اور اسلامی تمدن کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے لگی، اس اجمال کی تفصیل آئندہ اوراق میں پیش کریں گے، اب چونکہ عرب کی سلطنت اور رومی و ایران سلطنتوں کی زور آزمائی شروع ہونے والی ہے اور بہت جلد ہم ایران و روم کو عرب کے مقابلہ میں ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے دیکھنے والے ہیں ، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مشہور و متمدن سلطنتوں سے بقدر ضرورت واقف ہو جائیں ۔ کسی زمانہ میں ایرانی سلطنت بحیرہ روم، بحیرہ اسود ، خلیج فارس، دریائے سندھ ، کشمیر ، تبت ، کوہ الٹائی، بحیرہ کاسپین تک وسیع تھی، کیانی خاندان کی حکمرانی اور رستم و زابلستان کی پہلوانی کا زمانہ گزرنے کے بعد اسکندر یونانی نے سلطنت ایرانی کو پارہ پارہ کر دیا تھا، لیکن تمدن ایرانی باقی رہا تھا، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو سال پیشتر ارد شیر بابکاں نے ساسانی خاندان کی بنیاد ڈالی، ساسانی خاندان نے کیانیوں کی وسیع سلطنت کے اکثر حصوں کو اپنی مملکت میں شامل کر کے خلیج فارس، دریائے فرات، بحیرہ کاسپین ، دریائے سندھ، دریائے جیحوں کے درمیان ایک وسیع اور ٹھوس سلطنت قائم کر کے تمام براعظم ایشیا کی سیادت حاصل کر لی۔ رومیوں کی سلطنت کا مرکز سلطنت اٹلی کا شہر روما تھا جس میں جو لیس سیزر اور اغوسطس وغیرہ شہنشاہ گزر چکے تھے، اس سلطنت میں قریباً تمام براعظم یورپ اور مصر و ایشیائے کوچک شامل تھا، کچھ عرصہ بعد اس رومی شہنشاہی کے دو ٹکڑے ہو گئے، مغربی حصہ کا دارالسلطنت تو شہر روماہی رہا، لیکن مشرقی حصہ کا دارالسلطنت شہر قسطنطنیہ قرار پایا، قسطنطنیہ کے قیصر کو بھی قیصر روم ہی کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کے تحت و تصرف میں مصر، حبش، و فلسطین و شام و ایشیائے کوچک و بلقان کے ممالک تھے، اس مشرقی رومی سلطنت کی شان و شوکت اور قوت و سطوت کے آگے مغربی روم کی حیثیت و حقیقت ماند پڑ گئی تھی، ایشیائے کوچک اور عراق کے میدانوں میں ان دونوں شہنشاہیوں یعنی رومی و ایرانی سلطنتوں کی حد فاصل