کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 356
تلاش و تجسس میں سرگردانی کی ضرورت نہ تھی، لیکن اب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد رشید، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اوّل نے ٹھیک اپنے مرتبہ کے موافق ہمت و استقلال اور قوت قدسی کا اظہار کیا اور جس کام کو اسکندر یونانی، جولیس ، سیرزرومی، کیخسرو ایرانی مل کر بھی پورا کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے چند مہینوں میں اس کو بہ حسن و خوبی پورا کر کے دکھایا۔ اس میں شک نہیں کہ لشکر صدیق رضی اللہ عنہ میں خالد رضی اللہ عنہ عکرمہ رضی اللہ عنہ ، شرجیل رضی اللہ عنہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے بے نظیر مردان صف شکن موجود تھے، لیکن یہ بھی تو سوچو کہ صدیق اکبر کس طرح مدینہ منورہ میں بیٹھے ہوئے ملک کے ہر حصہ و ہر گوشہ کی حالت سے باخبر تھے اور کس طرح فوجی دستوں کے پاس ان کے احکام متواتر پہنچ رہے تھے، غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دستہ فوج اور ہر سالار لشکر ملک عرب کی بساط پر شطرنج کے ایک مہرہ کی طرح تھا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی انگشت تدبیر جس مہرہ کو جس جگہ مناسب ہوتا تھا اٹھا کر رکھ دیتی تھی اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان گیارہ اسلامی لشکروں نے ہر طرف روانہ ہو کر ملک عرب سے فتنہ ارتداد کو مٹا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بیٹھ کر شام و نجد سے مسقط و سیّدنا موت تک اور خلیج فارس سے یمن و عدن تک تمام براعظم تک تنہا اپنی تدبیرو رائے سے چند مہینے کے اندر ہر ایک خس و خاشاک کو پاک و صاف کر دیا اور اس فتنہ کی ہمت شکن ابتدا میں کوئی متنفس صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سوا ایسا نہ تھا جو اس کی انتہا کو دیکھ سکتا اور اور صرف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی کو وہ اندیشہ سوز ایمان حاصل تھا کہ انہوں نے نہ لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کو ملتوی کرنا مناسب سمجھا، نہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پاؤں پھلا دینے والی باتوں سے مرعوب و متاثر ہوئے، نہ منکرین زکوٰ ۃ کے مطالبات کو پرکاہ کے برابر وقعت دی، اب تم غور کرو اور سوچو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی سلطنت کا شہنشاہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کون ہو سکتا تھا؟