کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 355
بن بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا، اسی عرصہ میں عکرمہ رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر لیے ہوئے آ پہنچے، محاصرہ کی سختی اور کمک و سامان رسد کی آمد سے مایوس ہو کر اشعث نے صلح کی درخواست پیش کی، یہ درخواست اس قدر عاجز ہو کر پیش کی کہ اس نے اپنی قوم کے صرف نو آدمیوں کے لیے مع اہل و عیال جان بخشی و رہائی چاہی، مہاجر رضی اللہ عنہ نے اس درخواست کو منظور کر لیا، عجیب اتفاق یہ ہوا کہ اشعث غلطی سے ان نو آدمیوں کی فہرست میں اپنا نام بھول گیا تھا، چنانچہ ان نو آدمیوں کو چھوڑ کر باقی کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا، ان اسیران جنگ میں اشعث بن قیس بھی شامل تھا۔ جب یہ لوگ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے مدینے میں لا کر پیش کیے گئے تو اشعث نے اپنے افعال گزشتہ پر پشیمانی کا اظہار کیا اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ میرا اسلام قبول فرما لیں ، میں بطیب خاطر اسلام کو پسند اور اختیار کرتا ہوں ، سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اشعث بلکہ تمام اسیران بنو کندہ کو آزاد کر دیا اور صرف اس قدر کہا کہ مجھ کو امید ہے کہ میں آئندہ تم سے سوائے بھلائی کے اور کچھ نہ دیکھوں گا۔ ارتداد کا استیصال کامل: غرض ۱۱ ھ کے ختم اور ۱۲ ھ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے یعنی ایک سال سے کم مدت میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ملک عرب کے فتنۂ ارتداد پر پورے طور پر غالب آ گئے۔ محرم ۱۱ ھ میں جزیرۃ العرب مشرکین و مرتدین سے بالکل پاک و صاف ہو چکا تھا اور براعظم عرب کے کسی گوشہ اور کسی حصہ پر شرک و ارتداد کی کوئی سیاہی باقی نہ تھی۔ ایک طرف چند مہینے پہلے کی اس حالت پر غور کرو کہ مدینہ و مکہ و طائف کے سوا تمام ملک کا مطلع غبار آلود تھا اور اس غبار سے شمشیر و نیزہ و سنان اور کمندو کمان کے طوفان ابلتے ہوئے اور امنڈتے ہوئے نظر آتے تھے، پھریہ کیفیت تھی کہ پتھر کے موم کی طرح پگھلنے اور فولاد کی رگیں کچے دھاگے کی طرح شکستہ ہونے سے باز نہیں رہ سکتی تھیں ، پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہمتیں دریاؤں کے پانی کی طرح بہ سکتی تھیں ،اور آسمان کی طرح بلند و وسیع حوصلے تنگ و پست ہو کر تحت الثریٰ کی گم نامیوں میں شامل ہو سکتے تھے، لیکن دبستان محمدی کے تربیت یافتہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہمت و حوصلہ کا اندازہ کرو کہ تنہا اس تمام طوفان کے مقابلہ کو جس شوکت و شجاعت کے ساتھ میدان میں نکلا ہے ہم اس کی مثال میں نہ شیرونہنگ کا نام لے سکتے ہیں نہ رستم و اسفندیار کا نام زبان پر لا سکتے ہیں ، شیر نیستان و رستم و ستاں کے دلوں کو، اگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دل کی طاقت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ بھی ملا ہوتا تو ہم کو کسی مثال و تشبیہ کی