کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 350
بچوں کے سوا کوئی مرد باقی نہ تھا، اور زخمیوں کی مرہم پٹی ضروری سمجھ کر سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسی روز شہر یمامہ پر قبضہ کرنا ضروری نہ سمجھا، ان کا ارادہ تھا کہ کل صبح شہر پر قبضہ کرنے کے لیے بڑھیں گے۔ مجاعہ بن مرارہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہ کی، اس نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے جس قدر سردار مع مسیلمہ مارے گئے ہیں آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے مہم کو پورا کر لیا ہے ابھی ان سے بہت زیادہ بہادر جنگ جو لوگ باقی ہیں اور وہ شہر کی مضبوط فصیلوں اور سامان رسد، نیز سامان حرب کی کافی فراہمی سے فائدہ اٹھا کر آپ کو ناکوں چنے چبوا دیں گے، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ تھوڑی دیر کے لیے مجھے چھوڑ دیجئے تاکہ میں شہر میں جا کر ان سب لوگوں کو اس بات پر رضا مند کر لوں کہ وہ آپ کا مقابلہ نہ کریں اور شہر کو بہ رضا مندی صلح کے ساتھ آپ کے سپرد کر دوں ، سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مجاعہ سے کہا میں تجھ کو قید سے رہا کیے دیتا ہوں تو جا کر اپنی قوم کو صلح پر آمادہ کر، لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ صرف میں ان کے نفوس کی بابت صلح کروں گا۔ مجاعہ لشکر اسلام سے روانہ ہو کر شہر میں گیا اور وہاں شہر کی عورتوں کو مسلح ہو کر فصیل شہر پر کھڑے ہونے کی ہدایت کر کے جو کچھ سمجھانا تھا سمجھا دیا اور واپس آکر کہا کہ میری قوم محض اپنی جانوں کی بابت صلح کرنا نہیں چاہتی سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شہر کی طرف نظر ڈالی تو تمام فصیل تلواروں اور نیزوں سے چمک رہی تھی اور مسلح آدمیوں کی کثرت جو مجاعہ نے بیان کی تھی اس کی تصدیق ہو رہی تھی، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے زخمیوں کی کثرت اور مہم کے جلد ختم کرنے کے خیال سے صلح کو مناسب سمجھ کر اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ نصف مال و اسباب اور نصف مزروعہ باغات اور نصف قیدیوں کو بنو حنیفہ کے لیے چھوڑ دیں گے، مجاعہ پھر شہر میں گیا اور واپس آکر کہا کہ وہ لوگ اس پر بھی رضا مند نہیں ہوتے، آپ ایک ربع مال و اسباب وغیرہ لے کر صلح کر لیں ، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے چوتھائی اموال و املاک پر صلح کر لی اور صلح نامہ لکھا گیا۔ اس کے بعد جب دروازہ کھلوا کر اندر گئے تو وہاں سوائے عورتوں اور بچوں کے کسی مرد کا نام و نشان نہ پایا، سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مجاعہ سے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ فریب سے کام لیا ہے، اس نے کہا کہ میری قوم بالکل تباہ ہو جاتی، میرا فرض تھا کہ اپنی قوم کو مصیبت سے بچاؤں ، آپ مجھے معاف فرمائیے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ خاموش ہو رہے ، اور عہد نامہ کی خلاف ورزی کا خیال تک بھی ان کے دل میں نہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مسیلمہ بن وقش سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ایک خط لے کر پہنچے اس میں لکھا تھا کہ اگر تم کو بنو حنیفہ پر فتح حاصل ہو تو ان کے بالغ مردوں کو قتل کیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا