کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 349
ہر طرف سے سمٹ کر اور اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر دشمنوں پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ آور ہوئے تو لشکر کذاب کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بدحواسی کے عالم میں آوارہ و فرار ہونے لگے، محکم بن طفیل نے اپنے لشکر کی یہ حالت دیکھ کر بلند آواز سے کہا کہ ’’ اے بنو حنیفہ باغ میں داخل ہو جاؤ اور میں تمہارے پیچھے آنے والے حملہ آوروں کو روک رہا ہوں ، یہ آواز سن کر بھاگنے والے سب باغ میں داخل ہو گئے، محکم بن طفیل تھوڑی دیر لڑتا رہا، آخر عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مقتول ہوا، لیکن ابھی تک فتح و شکست کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، مرتدین بھی سنبھل کر پھر مقابلہ پر ڈٹ گئے اور طرفین سے داد شجاعت دی جانے لگی، مسلمانوں کے علمبردار سیّدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سیّدنا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علم اپنے ہاتھ میں لے لیا، مسلمانوں نے ایسی چپقلش مردانہ دکھائی کہ دشمن پیچھے ہٹتے ہٹتے باغ کی دیواروں کے نیچے پہنچ گیا، باغ کے دروازے پر تھوڑی دیر تک سخت لڑائی ہوئی، آخر مسلمانوں نے باغ کا دروازہ بھی توڑ دیا اور جا بجا سے دیواریں توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔ لوگوں نے مسیلمہ سے دریافت کیا ’’کہ وہ فتح کا وعدہ کب پورا ہو گا جو تیرا اللہ تعالیٰ تجھ سے کر چکا ہے‘‘ اس نے جواب دیا کہ یہ وقت ایسی باتوں کے دریافت کرنے کا نہیں ہے، ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے اہل و عیال کے لیے لڑے، باغ کے اندر بھی جب ہنگامہ زور دار گرم ہوا تو مسیلمہ مجبوراً مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور لوگوں کو لڑنے کے لیے آمادہ کرنے لگا، جب اس نے ہر طرف مسلمانوں کو چیرہ دست دیکھا تو گھوڑے سے اتر کر باغ کے باہر چپکے سے جانے لگا، اتفاقاً دروازہ باغ کے قریب وحشی (قاتل سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ) کھڑا تھا، اس نے اپنا حربہ پھینک مارا جو مسیلمہ کی دوہری زرہ کو کاٹ کر اس کے پیٹ کے پار نکل گیا۔ بالآخر دشمنوں میں سے جس کو جس طرف راستہ ملا بھاگا اور تھوڑی دیر میں مسلمانوں کے سوا مرتدوں میں کوئی نظر نہ آتا تھا، اس لڑائی میں دشمنوں کے سترہ ہزار آدمی غازیان اسلام کے ہاتھ سے مقتول ہوئے، اور ایک ہزار سے کچھ زیادہ مسلمانوں کو درجہ شہادت حاصل ہوا، لیکن مسلمانوں میں زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، شہید ہونے والوں میں حفاظ کلام اللہ بہت سے تھے، تین سو ساٹھ انصار اور تین سو ساٹھ تابعین اس لڑائی میں شہید ہوئے، لڑائی ختم ہونے کے بعد سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مجاعہ بن مرارہ کو جو قید میں تھا اپنے ہمراہ لے کر لاشوں کا معائنہ کیا اور سرداران لشکر مسیلمہ اور خود مسیلمہ کی لاش کو مجاعہ نے شناخت کیا۔ بنو حنیفہ یعنی لشکر مسیلمہ کے بقیۃ السیف تو آوارہ و مفرور ہو چکے تھے، شہر اور قلعہ یمامہ میں عورتوں اور