کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 347
مسیلمہ کذاب: فتح مکہ کے بعد جو وفود قبائل کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر مسلمان ہوئے تھے ان میں مسیلمہ بن حبیب بھی بنو حنیفہ کے وفد میں شامل تھا، جس کا اوپر عہد نبوی کے واقعات میں تذکرہ آ چکا ہے، جب وہ اپنے وطن یمامہ کی طرف واپس ہوا تو انھی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناسازی طبع کی خبر مشہور ہوئی، مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خط روانہ کیا کہ نبوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں دونوں شریک ہیں ، لہٰذا نصف ملک قریش کا اور نصف میرا رہے گا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواباً لکھا کہ: ((بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب سلام علی من اتبع الھدی امابعد فان الارض للہ یور ثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین۔)) ’’شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اللہ کے رسول محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام! سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد! بے شک (یہ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور (بہتر) انجام کار اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔‘‘ اس جواب کے روانہ کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو حنیفہ کے ایک معزز شخص رجال بن عنفوہ کو، جو ہجرت کر کے مدینہ میں آگیا تھا اور اس کا اپنی قوم پر بوجہ ہجرت کر جانے کے اور بھی زیادہ اثر تھا، مسیلمہ کے پاس روانہ کیا کہ اس کو نصیحت کر کے اسلام پر قائم کرے۔ رجال نے یمامہ میں پہنچ کر مسیلمہ کی تائید کی اور اس کا متبع بن گیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کی خوب گرم بازاری ہو گئی۔ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسیلمہ کذاب کا فوراً تدارک نہ ہو سکا کیونکہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی توجہ مختلف جہات پر تقسیم ہو گئی تھی، عکرمہ ابن ابی جہل کو مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے نام زد فرما کر روانہ کیا گیا تھا اور ان کے پیچھے شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو کمک دے کر روانہ کیا تھا، عکرمہ رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کے قریب پہنچ کر شرجیل کے شریک ہونے سے پہلے ہی شتاب زدگی سے حملہ کر کے شکست کھائی۔ اس خبر کو سن کر سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم اب مدینہ واپس نہ آؤ بلکہ حذیفہ و عرفجہ کے پاس چلے جاؤ، اور ان کی ماتحتی میں مہرہ اور اہل عمان سے لڑو۔ جب اس مہم سے فارغ حال ہو جاؤ تو مع اپنے لشکر کے مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کے پاس یمن و سیّدنا موت میں چلے جاؤ۔