کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 345
جھوٹی نبیہ کا نکاح: سجاح یہ پیغام پاتے ہی مسیلمہ کی طرف روانہ ہو گئی، اس نے اپنے قلعہ کے سامنے ایک خیمہ کھڑا کیا، سجاح کو اس میں اتارا، دونوں کی بات چیت ہوئی، سجاح نے مسیلمہ کی پیغمبری کو تسلیم کیا، اس پر ایمان لائی، پھر دونوں کا نکاح ہو گیا، نکاح کے بعد سجاح تین دن تک مسیلمہ کے پاس رہی، وہاں سے رخصت ہو کر اپنے لشکر میں آئی تو لشکر والوں نے کہا کہ نکاح کا مہر کہاں ہے، یہ تو نے بے مہر کیسا نکاح کیا ہے؟ وہ پھر مسیلمہ کے پاس گئی تو مسلیمہ نے کہا کہ میں نے تیرے مہر میں تیری جماعت کے لیے دو نمازیں یعنی عشاء اور فجر کی نماز معاف کر دی ہے، سجاح وہاں سے رخصت ہو کر آئی، ہذیل و عقبہ کو یمامہ کی نصف پیداوار وصول کرنے کے لیے چھوڑ کر روانہ ہوئی تھی کہ سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ جو بنو تمیم کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے سامنے آ گئے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے لشکر کو دیکھتے ہی سجاح کے ہمراہی فرار ہو گئے، اور وہ بہزار وقت اپنے قبیلہ بنی تغلب میں بمقام جزیرہ پہنچ کر گم نامی کی زندگی بسر کرنے لگی۔ سیدنا خالد بن ولید جب نبو تمیم کے علاقہ میں پہنچے تو وہاں کے ان لوگوں سے جو اسلام پر قائم تھے کوئی تعرض نہیں کیا، لیکن جو مرتد ہو گئے تھے وہ گرفتار و قتل کیے گئے، مرتد اور مسلمانوں کی شناخت اذان کے ذریعہ ہوتی تھی، جیسا کہ اوپر فرمان صدیقی میں ذکر آ چکا ہے … مالک بن نویرہ کی بستیوں پر بھی اذان کے بعد ہی حملہ ہوا۔ مالک بن نویرہ کا قتل: مالک بن نویرہ کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ اس نے وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر سن کر اظہار مسرت کیا تھا، پھر سجاح کے ساتھ بھی اس نے مصالحت کی تھی، مگر بعد میں اس کے لشکر سے جدا ہو کر چلا گیا تھا، اب جب کہ مالک بن نویرہ گرفتار ہو کر آیا اور سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے کہا کہ مالک بن نویرہ کی بستی سے اذان کی آواز جواباً آئی تھی اس لیے اس کو قتل نہیں کرنا چاہیے، بعض نے کہا کہ انہوں نے جواباً اذان نہیں کہی، یہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق واجب القتل ہے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جہاں تک تحقیق و تفتیش کی یقینی اور قطعی شہادت اس معاملہ میں دستیاب نہ ہوئی، اس پر طرہ یہ ہوا کہ مالک بن نویرہ نے جب سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی تو اس کی زبان سے اثناء گفتگو میں کئی بار یہ نکلا کہ تمہارے صاحب نے ایسا فرمایا یا تمہارے صاحب کا ایسا حکم ہے وغیرہ اس ’’ تمہارے صاحب‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہ لفظ سن کر غصہ سے فرمایا کیا وہ تیرے صاحب نہ تھے، اس پر اس نے کوئی مناسب جواب نہیں دیا۔ طبری کی روایت کے