کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 344
رہے اور قیس و صفوان میں جنگ شروع ہو گئی، اس اثناء میں سجاح بنت الحرث بن سوید نے جو قبیلہ تغلب سے تعلق رکھتی تھی نبوت کا دعویٰ کیا اور بنی تغلب کے سردار ہذیل بن عمران نے، اور بنی نمر کے سردار عقبہ بن ہلال، اور بنی شیبان کے سردار سلیل بن قیس نے اس کے دعویٰ کو قبول کیا، سجاح کے پاس چار ہزار کے قریب لشکر جمع ہو گیا، وہ اس لشکر کو لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے چلی، بنو تمیم کے اندر اختلاف پیدا ہو ہی گیا تھا، مالک بن نویرہ نے سجاح سے مصالحت کر کے اس کو مشورہ دیا کہ بنوتمیم کے دوسرے قبائل پر حملہ کرے اور اس طرح بنو تمیم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جائے، سجاح نے بنو تمیم پر حملہ کیا، بنو تمیم نے مقابلہ کر کے اس کے لشکر کو شکست دی مگر پھر صلح ہو گئی۔
اب سجاح مالک بن نویرہ اور وکیع بن مالک کو ہمراہ لے کر چلی، تھوڑی دور جا کر اور کچھ سوچ کر بنو تمیم کے یہ دونوں سردار جدا ہو کر واپس چلے گئے، سجاح اپنے لشکر کو لیے ہوئے آگے بڑھی، سجاح نے اپنے پیرؤں کے لیے پنج وقتہ نماز تو لازمی رکھی تھی، مگر سور کا گوشت کھانا، شراب پینا اور زنا کرنا جائز قرار دے دیاتھا، بہت سے عیسائی بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اس کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔
اب سجاح کو بنی تمیم کی بستیوں سے آگے بڑھ کر معلوم ہوا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکر اسلام لیے ہوئے اس کی طرف تشریف لا رہے ہیں ، ادھر مسیلمہ کذاب کی جمعیت کثیرہ کا حال سن کر اس کو تردد ہوا کہ کہیں وہ بھی نبوت کا مدعی ہونے کے سبب رقابت اور مخالفت پر آمادہ نہ ہو جائے، مسیلمہ کذاب نے جب سجاح کے لشکر کا حال سنا تو وہ بھی اپنی جگہ متردد ہوا، کہ ایک طرف اسلامی لشکر کا خطرہ ہے اور دوسری طرف سجاح لشکر عظیم لیے ہوئے نکلی ہے، اگر اس طرف متوجہ ہو گئی تو بڑی دقت پیش آئے گی۔
ادھر عکرمہ رضی اللہ عنہ اور شرجیل رضی اللہ عنہ بھی اپنی جمعیت کو لیے ہوئے یمامہ کے قریب پہنچ چکے تھے اور مسیلمہ و سجاح کو ایک دوسرے کا شریک کار سمجھ کر احتیاط کو کام میں لا رہے تھے، بالآخر مسیلمہ نے سجاح کو خط لکھا کہ تمہارا ارادہ کیا ہے؟ سجاح نے جواب دیا کہ میں مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہتی ہوں ، میں نبی ہوں اور سنا ہے کہ آپ بھی نبی ہیں ، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر مدینہ پر حملہ کریں ۔
مسیلمہ نے فوراً پیغام بھیجا کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے اس وقت تک تو میں نے آدھا ملک ان کے لیے چھوڑ دیا تھا اور آدھے ملک کو اپنا علاقہ سمجھا تھا، اب ان کے بعد تمام ملک پر میرا حق ہے، لیکن چونکہ تم بھی نبوت کی مدعی ہو لہٰذا میں آدھی پیغمبری تم کو دے دوں گا، بہتر یہ ہے کہ اپنے لشکر کو وہیں چھوڑ کر تنہا میرے پاس چلی آؤ تاکہ تقسیم پیغمبری اور مدینہ پر حملہ آوری کے متعلق تم سے تمام گفتگو اور مشورہ ہو جائے۔