کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 338
نامناسب خیال کرتے تھے، لیکن سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اظہار رائے کے بعد سب صحابی رضی اللہ عنہ ان کی رائے سے متفق ہو گئے تھے، ان دونوں قسم کے لوگوں میں کچھ فرق ضرور تھا، لیکن مسلمانوں نے جب کہ دونوں کے مقابلہ و مقاتلہ کو یکساں ضروری قرار دیا تو پھر ان دونوں میں کوئی فرق و امتیاز باقی نہ رہا، اور حقیقت بھی یہ ہے کہ دونوں گروہ دنیا طلبی اور مادیت کے ایک ہی سیلاب میں بہہ گئے تھے، جن کو صدیقی تدبیر و روحانیت نے غرق ہونے سے بچایا اور اس طوفان ہلاکت آفرین سے نجات دلا کر ملک عرب کا بیڑا ساحل فوز و فلاح تک صحیح سلامت پہنچایا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فرمان: صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں آتے ہی اوّل ایک فرمان لکھا اور اس کی متعدد نقلیں کرا کر قاصدوں کے ذریعہ ہر مرتد قبیلہ کی طرف ایک ایک فرمان بھیجا کہ اوّل جا کر تمام قبیلے کے لوگوں کو ایک مجمع میں بلا کریہ فرمان سب کو سنا دیا جائے، اس فرمان یا منشور کا مضمون یہ تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے، ہر اس شخص کو جس کے پاس یہ فرمان پہنچے خواہ وہ اسلام پر قائم ہو یا اسلام سے پھر گیا ہو: ’’فانی احمد الیکم اللّٰہ الذی لا الہ الا ھووحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ و اومن بما جاء واکفرمن ابی ذلک و اجاھدہ۔‘‘ اما بعد، خدائے تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی بنا کر بھیجا، جو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں اور ہدایت کے سراج منیر ہیں ، جس شخص نے دعوت اسلام قبول کی خدائے تعالیٰ نے اس کو حق کی ہدایت دی اور کامیابی کا سیدھا راستہ بتایا اور جس نے پیٹھ پھیری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بذریعہ جہاد، انقیاد و فرماں برداری کی طرف رجوع کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احکام الٰہی کو نافذ فرمانے، مسلمانوں کو نصیحت کرنے اور اپنے فرائض تبلیغ کو بخوبی سر انجام دینے کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے، خدائے تعالیٰ نے اس کی خبر قرآن مجید میں پہلے سے ہی دے دی تھی کہ: ﴿اِنَّک مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ﴾ (الزمر : ۳۹/۳۰) ’’تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘ ﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ﴾ ’’تم سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی، سو کیا اگر تم مر جاؤ گے تو وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘