کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 337
کرنے سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صاف انکار کر دیا ہے تو انہوں نے متفق ہو کر مدینہ پر حملہ کر دیا، ان حملہ آوروں کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ و طلحہ رضی اللہ عنہ و ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین نے مدینہ سے باہر ہی روکا اور مدینہ میں سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس خبر بھیجی، ادھر سے بلا توقف سیّدنا ابوبکرصدیق روانہ ہوئے اور ذی خشب تک ان کو پسپا کر دیا اور وہ ہزیمت پا کر بھاگ نکلے، کچھ عرصہ بعد سیّدنا صدیق اکبر گردوپیش موجود اور تیار مرتدین کی سرکوبی کے لیے پھر نکلے، آمنا سامنا پر دف اور قسم قسم کے باجے بجاتے اور ڈھول پیٹتے ہوئے آئے جس سے مسلمانوں کے اونٹ ایسے بد کے اور ڈر کے بھاگے کہ مدینہ ہی آکر دم لیا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں پھر سے منظم کیا اور دشمنوں پر حملہ آور ہوئے، مرتدین کو پانچ چھ گھنٹہ کی خوں ریز جنگ کے بعد شکست فاش حاصل ہوئی اور بہت سے مسلمانوں کے ہاتھوں سے مقتول ہوئے… سیّدنا نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ اور ایک چھوٹی سی جماعت کے ہمراہ مال غنیمت تو سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں بھیجا اور خود دشمنوں کے تعاقب میں روانہ ہو کر مقام ذی القصہ تک بڑھتے چلے گئے، ادھر دشمنوں نے پیچھے قبائل کے اندر موجود بہت سے مخلص مسلمانوں کو قتل کر دیا، جب سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حال سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے اور قسم کھائی کہ جس قدر مسلمان مرتدین کے ہاتھ سے شہید ہوئے ہیں جب تک اتنے ہی مرتدین کو قتل نہ کر لوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا۔ غرض آپ اسی عزم و تہیہ میں تھے کہ سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ مع مال غنیمت مدینے میں داخل ہوئے، آپ نے اسامہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو تو مدینہ میں چھوڑا کہ وہ اور ان کا لشکر جو سفر سے تھکا ہوا آیا ہے مدینہ میں آرام کریں اور خود مدینہ کے مسلمانوں کی مختصر سی جمعیت لے کر ذی خشب اور ذی قصہ کی طرف خروج کیا، ربذہ کے مقام ابرق میں عبس و ذبیان و بنوبکر و ثعلبہ بن سعد وغیرہ قبائل برسر مقابلہ ہوئے نہایت سخت لڑائی ہوئی، انجام کار مرتدین شکست یاب ہو کر فرار ہوئے، مقام ابرق میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے قیام کیا اور بنو ذبیان کے مقامات مسلمانوں کو دے دیئے، ان کی چراگاہیں مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے وقف فرما دیں ، وہاں سے آپ مقام ذی القصہ تک تشریف لے گئے اور دشمنوں کی قرار واقعی گوشمالی کی، پھر مدینہ منورہ میں واپس تشریف لے آئے، اب لشکر اسامہ نے بھی سستا لیا تھا۔ ملک عرب میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں سے مقابلہ و مقاتلہ درپیش تھا ان کی دو قسمیں تھیں ، اوّل وہ لوگ جو نجد و یمن و حضر موت وغیرہ کی طرف مسیلمہ و طلیحہ و سجاح وغیرہ جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ متفق ہو گئے تھے، ان لوگوں سے لڑنے یا قتال کرنے میں کسی صحابی کو اختلاف نہ تھا، دوسرے وہ قبائل جو زکوٰ ۃ کو ادا کرنے سے انکار کرتے تھے، ان سے قتال کرنے کو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم