کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 335
کے نتائج اسلام اور مسلمانوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئے، ملک کی اس شورش و بدامنی کے زمانہ میں لشکر اسلام کا اس طرح رومیوں پر حملہ آور ہونا گویا تمام مرتدین اور باغیوں کو بتا دینا تھا کہ ہم تمہاری ان سرکشیوں اور تیاریوں کو ایک پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتے، اس ہمت و طاقت کے عملی اشتہار و اعلان نے سرکشوں اور باغیوں کے حوصلوں کو پست کر کے ان کو فکرو تردد میں مبتلا کر دیا اور وہ بجائے اس کے کہ بے تحاشہ سب کے سب مسلمانوں کی بیخ کنی پر پل پڑتے، اپنی اپنی جگہ پر تحقیق کرنے لگے کہ مسلمانوں کو مغلوب کیا جا سکتا ہے یا نہیں ، یہی وجہ ہے کہ طلیحہ اسدی، اور مسیلمہ کذاب وغیرہ مدعیان نبوت اپنے اپنے علاقوں سے باہر قدم نہیں نکال سکے اور منکرین زکوٰ ۃ وغیرہ سرکش قبائل مخالفت اسلام کا قطعی فیصلہ نہ کر سکے، سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کا رومیوں کے لشکر پر فتح مند ہونا، اور سالماً غانماً واپس آنا اور اس خبر کا ملک میں شہرت پانا اور بھی زیادہ مفید ثابت ہوا، چونکہ مال غنیمت بھی خوب ہاتھ آگیا تھا لہٰذا آئندہ سرکشوں کو درست کرنا اور ملک کے امن و امان کو بحال کرنے میں اس غنیمت سے مسلمانوں کو بڑی امداد ملی اور فوجی دستوں کی روانگی میں سامان سفر کی تیاریاں زیادہ تکلیف دہ نہیں ہو سکیں ۔ فتنۂ ارتداد: عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ، مکہ، طائف کے سوا تمام ملک عرب ایسا مرتد ہو گیا کہ لوگ توحید کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی جگہ بتوں کی پوجا کرنے لگے تھے، حالانکہ یہ سمجھنا سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے، بات یہ تھی کہ کذابین یعنی جھوٹے مدعیان نبوت بھی نمازوں وغیرہ اور عبادات کے منکر نہ تھے اور یہ ارتداد کفرو شرک کے لیے نہ تھا بلکہ بعض ارکان اسلام بالخصوص زکوٰ ۃ سے لوگوں نے انکار کیا، اس ارتداد کا سبب قبائل عرب کی قدیمی مطلق العنانی اور آزاد منشی تھی۔ اسلام نے لوگوں پر زکٰوۃ فرض کی تھی، یہ ایک ٹیکس تھا جو علیٰ قدر مال و دولت صاحب نصاب لوگوں کو ادا کرنا پڑتا تھا، اس ٹیکس یا خراج کو وہ آزادی کے خوگر لوگ اپنے لیے ایک بارگراں محسوس کرتے تھے، جو ابھی اچھی طرح ذائقہ اسلام کی چاشنی سے آشنا نہ ہوئے تھے، انہوں نے اس اسلامی خراج کی ادائیگی سے انکار کیا، باقی مذہب اسلام سے ان کو انکار نہ تھا، زکوٰ ۃ کا انکار چونکہ قبائل کے مزاج اور مادی خواہشات و جذبات کے مناسب حال تھا لہٰذا اسی انکار میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک فوراً تمام ملک شریک ہو گیا، یہ چونکہ ایک سر کشی تھی لہٰذا نو مسلم سرکشوں کو مسیلمہ وطلیحہ وغیرہ کذابین نے اپنی طرف جذب کرنے اور مالی عبادات کے علاوہ جسمانی عبادات میں بھی تحفیف کر کے اپنی اپنی نبوت منوانے کا موقع پایا۔