کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 333
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی قوت ایمانی، قوت قلب، ہمت و شجاعت اور حوصلہ و استقامت کا اندازہ کرو کہ انہوں نے سب کو جواب دیا کہ اگر مجھ کو اس بات کا بھی یقین دلایا جائے کہ اس لشکر کے روانہ کرنے کے بعد مجھ کو مدینہ میں کوئی درندہ تنہا پا کر پھاڑ ڈالے گا تب بھی میں ، اس لشکر کی روانگی کو ہرگز ملتوی نہ کروں گا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ تمام وہ لوگ جو لشکر اسامہ میں شامل تھے روانگی کی تیاری کریں اور مدینہ کے باہر لشکر گاہ میں جلد فراہم ہو جائیں ۔ اس حکم کی تعمیل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے، سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے باپ سیّدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے اس لیے بعض لوگوں کے دلوں میں ان کی سرداری سے انقباض تھا، نیز سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت صرف سترہ سال کی تھی اس لیے بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ کوئی معمر قریشی سردار مقرر فرمایا جائے، جب تمام لشکر باہر جمع ہو گیا تو سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو (کہ وہ بھی اس لشکر کے ایک سپاہی تھے) سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ بڑے بڑے آدمی سب میرے ساتھ ہیں آپ رضی اللہ عنہ ان کو واپس بلا لیں اور اپنے پاس رکھیں کیونکہ مجھ کو اندیشہ ہے کہ مشرکین حملہ کر کے آپ رضی اللہ عنہ کو اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائیں ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ لشکرگاہ سے سالار لشکر کا پیغام لے کر جب روانہ ہونے لگے تو انصار نے بھی ایک پیغام سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں روانہ کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس لشکر کا سردار کوئی ایسا شخص مقرر فرمائیں جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر کا ہو اور شریف النسل ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آکر اوّل سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کا پیغام عرض کیا تو سیّدنا صدیق اکبر نے فرمایا کہ اس لشکر کے روانہ کرنے سے اگر تمام بستی خالی ہو جائے اور میں تن تنہا رہ جاؤں اور درندے مجھ کو اٹھا کر لے جائیں تب بھی اس لشکر کی روانگی ملتوی نہیں ہو سکتی، پھرانصار کا پیغام سن کر فرمایا کہ ان کے دلوں میں ابھی تک فخر و تکبر کا اثر باقی ہے، یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ خود اٹھے اور اس لشکر رخصت کرنے کے لیے پیدل مدینے سے باہر لشکر گاہ تک تشریف لائے، سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو مع لشکر رخصت کیا اور خود سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی رکاب میں باتیں کرتے چلے، سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا تو آپ سوار ہو جائیے یا میں سواری سے اتر کر پیدل چلتا ہوں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں سوار نہ ہوں گا اور تم کو سواری سے اترنے کی ضرورت نہیں اور میرا کیا نقصان ہو گا اگر میں تھوڑی دور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بطریق مشایعت تمہاری رکاب میں پیدل چلوں سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ طریق عمل انصار کے اس مذکورہ پیغام کو کافی جواب تھا، آپ رضی اللہ عنہ کو اسامہ رضی اللہ عنہ کی رکاب میں اس طرح پیدل چلتے ہوئے دیکھ کر تمام لشکر حیران رہ گیا اور