کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 332
اجماع امت نظر نہیں آتا۔ لشکر اسامہ کی روانگی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند ماہ پیشتر یمن و نجد کے علاقوں میں اسود و مسیلمہ کے فتنے نمودار ہو چکے تھے، ان ملکوں کے باشندے نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے، ابھی وہ پورے طور پر اسلام اور حقیقت اسلام سے واقف بھی نہ ہونے پائے تھے کہ جھوٹے مدعیان نبوت کے شیطانی فتنے نمودار ہوئے اور یہ نو مسلم لوگ ان کے فریب میں آ گئے، نجد کی طرف تو وہی کیفیت برپا تھی، لیکن وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر اسود عنسی کا کام ہو چکا تھا، مگر یمن کی طرف ابھی زہریلے اثر اور سامان فتن کا کلی استیصال نہیں ہوا تھا۔ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر تمام براعظم عرب میں نہایت سرعت اور برق رفتاری کے ساتھ پھیل گئی اور پھیلنی چاہیے تھی، اس خبر نے ایک طرف جدید الاسلام اور محتاج تعلیم قبیلوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا کر دی، دوسری طرف جھوٹے مدعیان نبوت کے حوصلوں اور ہمتوں میں اضافہ کر کے ان کے کاروبار میں ترقی پیدا کر دی، ہر ملک اور ہر قوم میں واقعہ پسند اور فتنہ پرداز لوگ بھی ہر زمانہ میں ہوا ہی کرتے ہیں اس قسم کے لوگوں کو بھی از سر نو اپنی شرارتوں کے لیے مناسب مواقع میسر آئے، شہرت طلب افراد اور حکومت پسند قبائل بھی اپنی مطلق العنانی اور تن آسانیوں کے لیے تدابیر سوچنے لگے، نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آنی شروع ہوئیں ، یہ خبریں اس تسلسل اور اس کثرت سے مدینہ میں آئیں کہ ان کو سن سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آنکھوں کے سامنے مصائب و آلام اور ہموم و غموم کے پہاڑ تھے اور ان کے دل و دماغ پر اتنا بوجھ پڑ گیا تھا کہ انہوں نے اگر درس گاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آغوش رسالت میں صبرواستقامت کی تعلیم نہ پائی ہوتی تو ان کی اور اسلام کی بربادی بہ ظاہر یقینی تھی، سوائے مدینہ، مکہ اور طائف تین مقاموں کے باقی تمام براعظم عرب میں فتنہ ارتداد کے شعلے پوری قوت اور اشتداد کے ساتھ بھڑک اٹھے تھے، ساتھ یہ خبریں بھی پہنچیں کہ مدینہ منورہ پر ہر طرف سے حملوں کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے مرض الموت میں شام کی جانب رومیوں کے مقابلہ کو لشکر اسلام کے ساتھ روانہ فرمایا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کے روبہ ترقی ہونے کے سبب یہ لشکر رکا ہوا تھا، اب بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس لشکر کو روانہ کرنا چاہا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ایسی حالت میں جب کہ ہر طرف سے ارتداد کی خبریں آ رہی ہیں اور مدینے پر حملے ہونے والے ہیں اس لشکر کی روانگی کو ملتوی کر دیا جائے،