کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 331
مارنے مرنے پر تیار تھے، میں نے خود اپنی بیعت کی درخواست نہیں کی بلکہ حاضرین نے خود بالاتفاق میرے ہاتھ پر کی، اگر اس وقت میں بیعت لینے کو ملتوی رکھتا تو اس اندیشہ اور خطرہ کے دوبارہ زیادہ طاقت سے نمودار ہونے کا قوی احتمال تھا، تم جب کہ تجہیز و تکفین کے کام میں مصروف تھے تو میں اس عجلت میں تم کو کیسے وہاں سے بلوا سکتا تھا۔سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے یہ باتیں سن کر فوراً شکایت واپس لی اور اگلے روز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مجمع عام کے رو برو سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔[1] سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ: بیعت سقیفہ سے واپس آ کر اگلے روز تجہیز و تکفین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فارغ ہو کر مسجد نبوی میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ممبر پر بیٹھ کر بیعت عامہ لی، بعد ازاں کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا، اور حمدو نعت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر کہاکہ ’’میں تمہارا سردار بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں ، پس اگر میں نیک کام کروں تو تمہارا فرض ہے کہ میری مدد کرو اور اگر میں کوئی غلط راہ اختیار کروں تو فرض ہے کہ تم مجھ کو سیدھے راستے پر قائم کرو، راستی و راست گفتاری امانت ہے اور دروغ گوئی خیانت، تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے جب تک کہ میں اس کا حق نہ دلوا دوں ، اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے جب تک کہ میں اس سے حق نہ لے لوں ، تم لوگ جہاد کو ترک نہ کرنا، جب کوئی قوم جہاد کو ترک کر دیتی ہے تو وہ ذلیل ہو جاتی ہے جب تک کہ میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو، جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تم میرا ساتھ چھوڑ دو، کیونکہ پھر تم پر میری اطاعت فرض نہیں ہے۔‘‘ اس روز ۳۳ ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بیعت سقیفہ کے بعد مدینہ منورہ اور مہاجرین و انصار میں اس اختلاف کا نام و نشان بھی کہیں نہیں پایا گیا جو بیعت سے چند منٹ پیشتر مہاجرین و انصار میں موجود تھا، سب کے سب اسی طرح شیر و شکر اور ایک دوسرے کے بھائی بھائی تھے، یہ بھی ایک سب سے بڑی دلیل اس امر کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو براہ راست درس گاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مستفیض ہوئے تھے، پورے طور پر دین کو دنیا پر مقدم کر چکے تھے اور دنیا میں کوئی گروہ اور کوئی جماعت ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتی۔ جب اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ۳۳ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک دن میں بطیب خاطر سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر تمام ملک عرب اور سارے مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کرلیا تو خلافت صدیقی سے بڑھ کر کوئی دوسرا
[1] سیرت النبی صلي الله عليه وسلم ابن کثیر ج ۳ ص ۲،۲۰۶۔