کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 330
’’الائمۃ من قریش‘‘ (امام قریش میں سے ہوں گے) سیّدنا بشیر رضی اللہ عنہ کے اس کلام کی بعض دوسرے انصار نے بھی تائید و تصدیق کی اور اس باخداقوم نے اپنی دنیوی اور مادی خدمات کو اپنے دینی و روحانی جذبات پر غالب نہ ہونے دیا، سیّدنا حباب بن المنذر رضی اللہ عنہ بھی یہ باتیں سن کر خاموش ہو گئے اور انہوں نے فوراً اپنی رائے تبدیل کر لی۔ ان کے خاموش ہوتے ہی یک لخت تمام مجمع پر سکون و خاموشی طاری ہو گئی اور خلافت کے متعلق مہاجرین اور انصار کا نزاع یکایک دور ہو گیا، اب سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ عمر رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں ، تم ان دونوں میں سے ایک کو پسند کر لو، سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں ، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں یہ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق تھے، نماز کی امامت کرانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا قائم مقام بنایا، حالانکہ نماز امور دین میں سب سے افضل شے ہے، پس سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا خلافت و امارت کا مستحق نہیں ہو سکتا، یہ فرمانے کے بعد سب سے پہلے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کے بعد سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا بشیر رضی اللہ عنہ بن سعد انصاری نے بیعت کی اوران کے بعد چاروں طرف سے لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے، یہ خبر باہر پہنچی اور لوگ سنتے ہی دوڑ پڑے، غرض تمام مہاجرین و انصار نے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بلا اختلاف متفقہ طور پر بیعت کر لی … انصار میں سے صرف سیّدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اور مہاجرین میں سے ان لوگوں نے جو تجہیز و تکفین کے کام میں مصروف تھے، اس وقت سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعت نہیں کی، سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے تھوڑی دیر بعد اسی روز سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ و طلحہ رضی اللہ عنہ نے مہاجرین میں سے چالیس روز تک محض اس شکایت کی بنا پر بیعت نہیں کی کہ سقیفہ بنو ساعدہ کی بیعت میں ہم کو کیوں شریک مشورہ نہیں کیا گیا… سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ایک دن سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و استحقاق خلافت کا منکر نہیں ہوں لیکن شکایت یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہیں ، آپ نے سقیفہ بنو ساعدہ میں ہم سے مشورہ کیے بغیر کیوں لوگوں سے بیعت لی، آپ رضی اللہ عنہ اگر ہم کو وہاں بلوا لیتے تو ہم بھی سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے۔[1] سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا مجھ کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ عزیز و محبوب ہے، میں سقیفہ میں بیعت لینے کی غرض سے نہیں گیا تھا بلکہ مہاجرین و انصار کے نزاع کا رفع کرنا نہایت ضروری تھا، دونوں فریق لڑنے اور
[1] سیرت النبی صلي الله عليه وسلم ابن کثیر ج ۳ ص ۱۶۲۔