کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 33
دادا کے حالات سے بے خبر ہے میدان جنگ سے جان بچا کر فرار کی عار گوارا کر سکتا ہے لیکن جو واقف ہے کہ میرے باپ نے فلاں فلاں میدانوں میں اپنی جان کو معرض ہلاکت میں ڈال کرمیدان جنگ سے منہ نہ موڑ کر عزت اور شہرت حاصل کی تھی وہ کبھی نہ بھاگ سکے گا اور فرار کا خیال دل میں آتے ہی اس کے باپ کے کارناموں کی یاد زنجیر پا ہو جائے گی۔ اسی طرح وفا، صدق، مقال، پاک دامنی، حیا، سخاوت وغیرہ اخلاق فاضلہ کو قیاس کرلو بزرگوں کے حالات کی واقفیت ہی دنیا میں بہت کچھ امن اور قوموں میں زندگی کی روح پیدا کر سکتی ہے، غالباً اسی بات پر غور کر کے ہماری ہمسایہ قوموں میں سے بعض نے جو اپنی کوئی شاندار تاریخ نہیں رکھتیں فرضی افسانوں اورجھوٹے ناولوں کو تاریخ کا جامہ پہنا کر اپنا کام نکالنا چاہا ہے، اورمطلق پرواہ نہیں کی کہ ہم راست گفتاری کی عدالت اور مؤرخین کی مجلس میں کس قدر ذلیل و خوار ٹھہرائے جائیں گے۔ تاریخ اور شرافت نسبی: تاریخ میں چونکہ اچھے آدمیوں کی خوبیاں اور برے لوگوں کی برائیاں لکھی جاتی ہیں ، لہٰذا کسی ذلیل یا کمینہ خاندان والے کو علم تاریخ سے بہت ہی کم محبت ہو سکتی ہے۔ شریف قوموں کو اپنے آباء و اجداد کے کارہائے نمایاں یاد ہوتے ہیں جن کی پیروی کو وہ اپنی شرافت قائم رکھنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ، رذیل قومیں امتداد زمانہ کے سبب سے اپنے بزرگوں کے بزرگ کاموں کو بھی بھول جاتی ہیں ۔ کسی خاندان یا قوم کو جس کے باپ دادا نے عبادت و ریاضت، جوانمردی، علم و ہنر جاہ وحشمت وغیرہ میں خصوصی امتیاز حاصل کیا ہو اور وہ اس کوبالکل فراموش نہ کر چکے ہوں تو ان کو بزرگوں کے بڑے بڑے کارنامے باربار یاد دلا کر عزم و ہمت اورغیرت و حمیت ان میں پیدا کرسکتے ہیں ، مگر رذیل قوموں کے اندر یہ کام نہیں ہو سکتا، یہی سبب ہے کہ علم تاریخ کا شوق رکھنے والے اکثر شریف القوم، عالی نسب، بزرگ زادے اور نیک آدمی ہوتے ہیں ، کوئی کمینہ خاندان کا آدمی یا خدائے تعالیٰ کا منکر یعنی دہر یہ یا کوئی بزدلی میں شہرت رکھنے والا دنیا میں اعلیٰ درجہ کا مؤرخ اور تاریخ کا امام نہیں گزرا۔ مؤرخ: بہترین مورخ وہ ہوتا ہے جو سالم العقیدہ اور پاک مذہب ہو۔ جو کچھ لکھے، وہ بیان واقع ہو۔ نہ کسی بات کو چھپائے نہ کوئی غلط بات اپنی طرف سے بڑھائے، جہاں کہیں کم فہم لوگوں کے ٹھوکر کھانے اور غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو وہاں اس واقعہ کے متعلق اپنی طرف سے تشریح کر دینا اور حقیقت کو سمجھا دینا جائز ہے، مؤرخ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی کی خوشامد کرے اور نہ کسی سے عداوت رکھے۔