کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 329
علی کرم اللہ وجہہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تجہیز و تکفین کے کام کی تکمیل میں مصروف چھوڑ گئے، اگر اس وقت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ذرا بھی تامل فرماتے تو اللہ تعالیٰ جانے کیسے کیسے خطرات رونما ہو جاتے۔ یہ تینوں بزرگ اس مجمع میں پہنچے تو وہاں عجیب افراتفری اور تو تو میں میں کا عالم برپا تھا سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہاں اس مجمع کو مخاطب کر کے کچھ بولنا چاہا، لیکن سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے روک دیا اور خود کھڑے ہو کر نہایت وقار و سنجیدگی کے ساتھ تقریر فرمائی۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ابھی تھوڑی دیر ہوئی سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ازخودرفتگی دیکھ چکے تھے کہ وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شمشیر بدست پھر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جو کوئی یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اس کا سر اڑا دوں گا، لہٰذا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوا کہ یہاں بھی کہیں فرط جوش اور وفور غم میں کوئی اسی قسم کی بات نہ کہہ گزریں ، لہٰذا انہوں نے خود مجمع کو مخاطب فرما کر تقریر شروع کی اور اسی کی ضرورت تھی، چنانچہ انہوں نے فرمایا … اوّل مہاجرین امراء ہوں گے اور انصار وزراء، … آپ رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر سیّدنا حباب بن المنذر بن الجموح رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے …سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حباب انصاری رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ تم کو خوب یاد ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو وصیت کی ہے کہ انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا، انصار کو وصیت نہیں کی کہ مہاجرین کے ساتھ رعایت کا برتاؤ کرنا، یہ دلیل اس بات کی ہے کہ حکومت و خلافت مہاجرین میں رہے گی، سیّدنا حباب بن المنذر رضی اللہ عنہ نے فوراً سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کلام کو قطع کیا اور خود کچھ فرمانے لگے، نتیجہ یہ ہوا کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیّدنا حباب رضی اللہ عنہ دونوں زور زور سے باتیں کرنے لگے …سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے دونوں کو روکنے اور خاموش کرنے کی کوشش کی …اتنے میں سیّدنا بشیر بن النعمان بن کعب بن الخزاج انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیشک قبیلہ قریش سے تھے، لہٰذا ان کی قوم یعنی قریش کے لوگ ہی خلافت کے زیادہ مستحق ہیں … ہم لوگوں نے بیشک دین اسلام کی نصرت کی اور ہم سابق بالایمان ہیں ، لیکن ہمارا اسلام لانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد کے لیے مستعد ہو جانا محض اس لیے تھا کہ خدائے تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے، اس کا معاوضہ ہم دنیا میں نہیں چاہتے اور نہ ہم خلافت و امارت کے معاملہ میں مہاجرین سے کوئی جھگڑا کرنا پسند کرتے ہیں…حباب رضی اللہ عنہ بن المنذر نے کہا کہ بشیر رضی اللہ عنہ تو نے اس وقت بڑی بزدلی کی بات کہی، اور بنے بنائے کام کو بگاڑنا چاہا ہے، سیّدنا بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بزدلی کا اظہار نہیں کیا بلکہ میں نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ ایسی قوم سے خلافت و امارت کے متعلق جھگڑا کرو جو خلافت و امارت کی مستحق ہے، کیا اے حباب رضی اللہ عنہ ! تو نے سنا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ