کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 328
ان میں قریباً سب مہاجرین تھے، کیونکہ مہاجرین کے مکانات اسی محلہ میں زیادہ تھے، یہاں انصار بہت کم تھے، دوسری طرف بازار کے متصل سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کا اجتماع تھا، اس مجمع میں تقریباً سب انصار ہی تھے، کوئی ایک دو مہاجر بھی اتفاقاً وہاں موجود تھے، اسلام کی ابتدا اور اس کی نشوونما مخالفین کی کوششیں ، جنگ و پیکار کے ہنگامے، شرک کا مغلوب و معدوم ہونا، اور اسلامی قانون و اسلامی آئین کے سامنے سب کا گردنیں جھکا دینا سب کچھ ان لوگوں کے پیش نظر تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ نظام اب وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دنیا میں اسی وقت بحسن و خوبی قائم رہ سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں منتخب کر لیا جائے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عاشقانہ جذبہ نے لوگوں کو کچھ سوچنے اور مسئلہ خلافت پر غور کرنے کا موقع ہی نہ دیا، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر سن کر اگر جلد یہاں نہ پہنچ جاتے تو اللہ تعالیٰ جانے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عشاق نبوی کی یہ حیرت و اضطراب کی حالت کب تک قائم رہتی، لیکن دوسرے مجمع کی جو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی نشست گاہ میں تھا یہ حالت نہ تھی، وہاں انتخاب خلیفہ کے متعلق گفتگو ہوئی، چونکہ وہ مجمع انصار ہی کا تھا اور ایک سردار قبیلہ کی نشست گاہ میں تھا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور قبیلہ خزرج تعداد نفوس اور مال و دولت میں انصار کے دوسرے قبیلہ اوس سے فائق و برتر تھا، لہٰذا اس مجمع کی گفتگو اور اظہار خیالات کا نتیجہ یہ تھا کہ سیّدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ یعنی جانشین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کیا جائے۔ مہاجرین کی تعداد اگرچہ مدینہ میں انصار سے کم تھی لیکن ان کی اہمیت اور ان کی بزرگی و عظمت کا انصار کے قلوب پر ایسا اثر تھا کہ جب سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے خلافت کو انصار ہی کا حق ثابت کرنا چاہا تو انصار کے ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مہاجرین انصار کی خلافت کو کیسے تسلیم کریں گے، اس پر ایک دوسرے انصاری نے کہا کہ اگر انہوں نے تسلیم نہ کیا تو ہم ان سے کہہ دیں گے کہ ایک خلیفہ تم اپنا مہاجرین میں سے بنا لو اور ایک خلیفہ ہم نے انصار میں سے بنا لیا ہے، سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں یہ ایک کمزوری کی بات ہے، ایک اور انصاری نے کہا کہ اگر مہاجرین نے ہمارے خلیفہ کو تسلیم نہ کیا تو ہم ان کو بذریعہ شمشیر مدینہ سے نکال دیں گے، اس مجمع میں جو چند مہاجرین تھے انہوں نے انصار کی مخالفت میں آواز بلند کی اس طرح اس مجمع میں بحث و تکرار شروع ہو گئی، ممکن تھا کہ یہ ناگوار صورت ترقی کر کے جنگ و پیکار تک نوبت پہنچ جاتی۔ یہ خطرناک رنگ دیکھ کر سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر سقیفہ بنی ساعدہ کی روداد سنائی، یہاں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنی تقریر ختم کر کے تجہیز و تکفین کے سامان کی تیاری میں مصروف ہو چکے تھے، اس وحشت انگیز خبر کو سن کر سیّدنا ابوبکر صدیق اپنے ہمراہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لے کر سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے اور سیّدنا