کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 327
خلافت صدیقی کے اہم واقعات سقیفہ بنو ساعدہ اور بیعت خلافت: اوپر بیان ہو چکا ہے کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تقریر فرما کر لوگوں کی حیرت دور فرما چکے تھے کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کے مجتمع ہونے اور بلا مشاورت مہاجرین کسی امیر یا خلیفہ کے انتخاب کی نسبت گفتگو کرنے کی خبر پہنچی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام پر یہ سب سے زیادہ نازک وقت تھا، اگر اس خبر کو سن کر سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خاموش رہتے اور اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو سخت اندیشہ تھا کہ مہاجرین و انصار کی اخوت و محبت ذرا سی دیر میں برباد ہو کر جمعیت اسلامی پارہ پارہ ہو جاتی، مگر چونکہ خدائے تعالیٰ اپنے دین کا خود حافظ و ناصر تھا، اس نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہمت و استقامت عطا فرمائی کہ ہر ایک خطرہ اور ہر ایک اندیشہ ان کی بصیرت و قوت کے آگے فوز و اصلاح سے تبدیل ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم اور ایک ہی خاندان بنا دیاتھا اور نور ایمان کے محیر العقول اثر سے قبیلوں ، خاندانوں اور ملکوں کے امتیازات یک سر برباد و منہدم ہوچکے تھے اور ان کی حقیقت اس سے زیادہ باقی نہ رہی تھی کہ قبیلوں اور خاندانوں کے نام سے لوگوں کی شناخت میں اور پتہ دینے میں آسانی ہوتی تھی اور بس۔ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور اس روح اعظم کے ملاء اعلیٰ کی طرف متوجہ ہونے پر ذرا سی دیر کے لیے اس تفریق قومی کے ابتلا کا کروٹ لینا کوئی حیرت اور تعجب کا مقام نہیں ہے دیکھنا یہ ہے کہ صحابہ کرام کی پاک و مطہر جماعت نے اس ابتلاء کو اپنے لیے موجب اصطفا بنایا یا سامان بربادی، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین کی تعداد انصار کے مقابلے میں کم تھی، لیکن انصار بھی دو حصوں میں منقسم تھے یعنی اوس، اور خزرج، اسلام سے پہلے قدیم سے ایک دوسرے کے حریف اور رقیب چلے آتے تھے، اس طرح مدینہ منورہ کے موجودہ مسلمانوں کو تین بڑے بڑے حصوں میں منقسم سمجھا جا سکتا تھا، اوس، خزرج، قریش یا مہاجرین یا مکی، قبیلہ خزرج کے رئیس سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے، ان کے مکان کے ملحق ایک وسیع نشست گاہ تھی، جس کی صورت یہ تھی کہ ایک وسیع چبوترہ تھا اس کے اوپر سائبان پڑا ہوا تھا، اسی کو سقیفہ بنی ساعدہ کہتے تھے۔ بیعت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حال سن کر ایک طرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگ جمع ہو گئے تھے،