کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 324
علم تعبیر میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل تھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آپ رضی اللہ عنہ خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے، امام محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سب سے بڑے معبر ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ فصیح تقریر کرنے والے تھے، بعض اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ صحابہ میں سب سے زیادہ فصیح ابوبکر رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ تھے، تمام صحابیوں میں آپ رضی اللہ عنہ کی عقل کامل اور اصابت رائے مسلم تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بارہا فرمایا ہے کہ اس امت محمدی میں سب سے زیادہ افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، ایک مرتبہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص مجھ کو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے گا میں اس کے درے لگاؤں گا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر رحم کریں کہ اس نے اپنی بیٹی مجھے زوجیت میں دی اور مجھے مدینہ تک پہنچایا اور بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا، اللہ تعالیٰ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، حق بات کہتے ہیں خواہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ تعالیٰ عثمان رضی اللہ عنہ پر رحم کرے کہ ان سے فرشتے حیا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ علی رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، الٰہی جہاں علی ہو حق اس کے ساتھ رکھ۔[1] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بالا جماع خلیفہ بنایا، کیونکہ اس وقت دنیا کے پردے پر ان سے بہتر آدمی نہ ملا، معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو کبھی خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں شک نہیں ہوا، اور وہ لوگ ہمیشہ ان کو خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے، اور صحابی کبھی کسی خطا یا گمراہی پر اجماع نہیں کر سکتے۔ حسن معاشرت: عطاء بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بیعت خلافت کے دوسرے دن سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ دو چادریں لیے ہوئے بازار کو جاتے تھے، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ فرمایا بازار، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب آپ یہ دھندے چھوڑ دیں ، آپ مسلمانوں کے امیر ہو گئے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں اور میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کام ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کیجئے، چنانچہ دونوں صاحب سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا اور میرے اہل و عیال کا نفقہ مہاجرین سے وصول کر دیا کرو، ہر چیز معمولی حیثیت کی چاہئے، گرمی اور جاڑے کے کپڑوں کی بھی ضرورت ہو گی، جب پھٹ جایاکریں گے تو ہم واپس کر دیا
[1] ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح المحقق الالبانی رحمہ اللہ ۔ شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔