کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 323
صدقہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور اپنا نصف مال تصدق کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا کہ اپنے اہل و عیال کے واسطے کچھ چھوڑا، میں نے عرض کیا کہ باقی نصف، اتنے میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لیے ہوئے آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ اہل و عیال کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ تعالیٰ کافی ہیں ، میں نے یہ دیکھ کر کہا کہ میں کبھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی بات میں نہ بڑھ سکوں گا۔[1]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سب کا احسان اتار چکا ہوں ، البتہ ابوبکرصدیق کا احسان باقی ہے، اس کابدلہ قیامت کے دن خدائے تعالیٰ دے گا، کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے مال سے۔
علم و فضل:
آپ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ عالم اور ذکی تھے، جب کسی مسئلہ کے متعلق صحابہ کرام میں اختلاف واقع ہوتا تو وہ مسئلہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا جاتا، آپ رضی اللہ عنہ اس پرجو حکم لگاتے وہ عین صواب ہوتا۔
قرآن شریف کا علم آپ رضی اللہ عنہ کو سب صحابیوں رضی اللہ عنہم سے زیادہ تھا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو نماز میں امام بنایا، سنت کا علم بھی آپ رضی اللہ عنہ کو کامل تھا، اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسائل سنت میں آپ رضی اللہ عنہ ہی سے رجوع کرتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کا حافظہ بھی قوی تھا، آپ رضی اللہ عنہ نہایت ذکی الطبع تھے، آپ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحبت ابتدائے بعثت سے وفات تک حاصل رہا، زمانہ خلافت میں جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ رضی اللہ عنہ قرآن شریف میں اس مسئلہ کو تلاش فرماتے، اگر قرآن شریف میں نہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے موافق فیصلہ کرتے، اگر کوئی ایسا قول و فعل معلوم نہ ہوتا تو باہر نکل کر لوگوں سے دریافت فرماتے کہ تم نے کوئی حدیث اس معاملہ کے متعلق سنی ہے؟ اگر کوئی صحابی ایسی حدیث بیان نہ فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع فرماتے اور ان کی کثرت رائے کے موافق فیصلہ صادر فرماتے۔
سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ عرب بھر کے بالعموم اور قریش کے بالخصوص بڑے نساب تھے، حتی کہ جبیر بن مطعم جو عرب کے بڑے نسابوں میں شمار ہوتے تھے، سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خوشہ چیں تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں نے علم نسب عرب کے سب سے بڑے نساب سے سیکھا ہے۔
[1] جامع ترمذی، ابواب المناقب، حدیث صحیح الالبانی رحمہ اللہ ۔