کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 321
فوراً قبول کر لیا اور نصرت و امداد کا وعدہ فرمایا، پھر وعدہ کو نہایت خوبی کے ساتھ پورا کر دکھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بجز ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے جس کو میں نے اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ پس و پیش ضرور کیا، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بجز نبی کے اور کسی پر جو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو آفتاب طلوع نہ ہوا، چونکہ آپ قریش میں ہر دل عزیز تھے، اس لیے بہت سے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے سمجھانے سے ایمان لے آئے جن میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ جیسے حضرات شامل تھے۔ عہداسلام: سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، جس شخص نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی وہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے، میمون بن مہران سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، انہوں نے یہ سن کر سخت غصہ کیا اور فرمانے لگے، مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ میں ان دونوں میں موازنہ کیے جانے کے وقت تک زندہ رہوں گا، ارے یہ دونوں اسلام کے لیے بمنزلۂ سر کے تھے، مردوں میں سب سے پہلے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، لڑکوں میں سب سے پہلے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے، عورتوں میں سب سے پہلے سیّدنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ایمان لائی تھیں ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کبھی رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہجرت کی، غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا، لڑائیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ تم میں سے ایک کے ساتھ جبرائیل ہیں اور دوسرے کے ساتھ میکائیل علیہ السلام ۔ جنگ بدر میں عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ مشرکین کے لشکر میں شامل تھے، جب وہ مسلمان ہو گئے تو انہوں نے اپنے والد ماجد، یعنی سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بدر کے روز آپ رضی اللہ عنہ کئی مرتبہ میرے تیر کی زد میں آئے، مگر میں نے اپنا ہاتھ روک روک لیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر مجھے ایسا موقع ملتا تو میں تجھے بغیر نشانہ بنائے نہ رہتا۔ شجاعت: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے سوال کیا کہ تمہارے نزدیک شجاع ترین کون شخص ہے،