کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 320
(۱) ہاشم (۲) امیہ (۳) نوفل (۴) عبدالدار (۵) اسد (۶)تیم (۷) مخزوم (۸) عدی (۹) جمح (۱۰)سہم۔‘‘ ان میں بنو ہاشم کے متعلق سقایہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا، بنو نوفل کے متعلق بے زاد حاجیوں کو توشہ دینا، بنو عبدالدار کے پاس خانہ کعبہ کی کنجی اور دربانی تھی، بنو اسد کے متعلق مشورہ اور دارالندوہ کا اہتمام تھا، بنو تیم کے متعلق خوں بہا اور تاوان کا فیصلہ تھا، بنو عدی کے متعلق سفارت اور قومی مفاخرت کا کام تھا، بنو جمح کے پاس شگون کے تیر تھے، بنو سہم کے متعلق بتوں کا چڑھاوا رہتا تھا۔ بنو تیم میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خون بہا اور تاوان کا فیصلہ کرتے تھے جس کو سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مان لیتے تمام قریش اس کو تسلیم کرتے، اگر کوئی دوسرا اقرار کرتا تو کوئی بھی اس کا ساتھ نہ دیتا تھا، اسی طرح بنو عدی میں سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سفارت کی خدمت انجام دیتے اور میدان جنگ میں بھی سفیر بن جاتے اور مقابلہ میں قومی مفاخر بیان کرتے تھے، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ علاوہ اس شرف و فضیلت کے کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار اور منجملہ دس سرداران قریش کے ایک سردار تھے، مال و دولت کے اعتبار سے بھی بڑے متمول اور صاحب اثر تھے، آپ قریش میں بڑے بامروت اور لوگوں پر احسان کرنے والے تھے، مصائب کے وقت صبر و استقامت سے کام لیتے اور مہمانوں کی خوب مدارات و تواضع بجا لاتے، لوگ اپنے معاملات میں آپ رضی اللہ عنہ سے آ آ کر مشورہ لیا کرتے اور آپ رضی اللہ عنہ کو اعلیٰ درجہ کا صائب الرائے سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ ابن الدغنہ آپ رضی اللہ عنہ کو راستہ سے جب کہ آپ رضی اللہ عنہ مکہ سے رخصت ہو چکے تھے واپس لے آیا تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ انساب اور اخبار عرب کے بڑے ماہر تھے، آپ رضی اللہ عنہ طبعاً برائیوں اور کمینہ خصلتوں سے محترز رہتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے جاہلیت ہی میں اپنے اوپر شراب حرام کر لی تھی، سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی شراب پی ہے، آپ نے فرمایا نعوذ باللہ کبھی نہیں ، اس نے پوچھا کیوں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بدن سے بو آئے اور مروت زائل ہو جائے۔ یہ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں روایت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا کہ ابوبکر سچ کہتے ہیں ۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خیر مجسم، بے عیب، سلیم الطبع اور حق پسند و حق پرور تھے، یہی سبب تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو دعوت اسلام پیش کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ بھی پس و پیش نہ کیا،