کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 317
دوسروں پر فضیلت تھی اور خدائے تعالیٰ نے ان کو خلافت کے لیے منتخب فرمایا، پھر جب ان کی وہ حالت نہ رہی تو دوسرے لوگوں میں سے جو منصب خلافت کے متعلق بہترین معلوم ہوتے خدائے تعالیٰ نے ان کو خلافت و حکومت عطا فرمائی۔بہرحال خلافت یا حکومت و سلطنت کسی خاندان کے لیے مخصوص نہیں ہے، یہ خدائے تعالیٰ کا ایک انعام ہے اور ہمیشہ ان لوگوں کو ملتا ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کریں ، جب وہ نااہل اور نالائق ہو جاتے ہیں تو خدائے تعالیٰ ان سے اس انعام کو چھین لیتا اور دوسروں کو عطا فرما دیتا ہے، اور یہی الٰہی انصاف سے ہم کو توقع ہونی چاہیے تھی۔ خلافت اور پیری مریدی: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورۂ نور کی آیت استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ پیری مریدی کا سلسلہ مراد ہے، میرے نزدیک یہ سراسر نا درست اور غلط عقیدہ ہے، یہ مانا کہ پیر بھی اپنے مریدوں پر حکمران ہوتا ہے، لیکن اس حکومت اور خلیفہ کے نافذ الفرمان ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، کسی پیر کو زمین کا حاکم اور زمین کا داور ہرگز نہیں کہا جا سکتا، قرآن کریم نے خلیفہ کے معانی سمجھانے میں آدم و داؤد علیہماالسلام کا نام لے کر اور ان کی مثالیں بیان فرما کر کسی اشتباہ کا موقع باقی نہیں رکھا، ہم کو بہرحال قرآن کریم ہی کی اصطلاح سے کام لینا ہے اور قرآن کریم اپنے الفاظ کے معنیٰ خود بتا دیتا ہے۔