کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 316
متعلق صاف صاف احکام صادر فرما جاتے، اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے احکام نازل فرما دیئے تھے اور وہ احکام چالاکی سے غاصبان خلافت نے چھپا لیے تھے تو پھر خدائے تعالیٰ نعوذ باللہ جھوٹا ٹھہرتا ہے جس نے وعدہ فرمایا تھا کہ ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر :۱۵/۹) اور نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرض تبلیغ کو ہرگز ہرگز پورے طور پر انجام نہیں دیا کہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں بھی اپنے جانشیں اور خلافت کے بنو ہاشم میں مخصوص طور پر رہنے کی نسبت کچھ نہ فرمایا، حالانکہ اس خطبہ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریباً سوا لاکھ آدمیوں کے مجمع میں اپنی تبلیغ کے مکمل کر دینے کا اعلان فرما دیا اور لوگوں سے اس کی تصدیق چاہی، پھر مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا ذرا سی باتوں کے متعلق بھی جن کو ضروری سمجھا وصیت فرمائی، اگر کسی کا ایک درہم یا دینار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرض تھا تو اس کو ادا فرمایا، لیکن خلافت کے متعلق اس عظیم الشان قرضہ خلافت کو ادا نہ فرمایا ! بات وہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ خلیفہ بنانے کا کام خدائے تعالیٰ کا ہے اور اس کام کے لیے اس نے نبی کو مطلق تکلیف نہیں دی، ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالیٰ سے علم پا کر اس بات کو ضرور معلوم کر لیا تھا کہ میرے بعد خدائے تعالیٰ کس کو خلیفہ بنانے والا ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو نمازوں کی امامت کے لیے اپنا قائم مقام بنایا اور وصیت میں مہاجرین کو فرمایا کہ تم انصار کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ [1] مہاجرین سے انصار کی اس طرح سفارش کرنا دلیل اس امر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو چکا تھا کہ میرے بعد خلافت انصار کو نہیں بلکہ مہاجرین کو ملنے والی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ((الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ ثم ملک بعد ذلک)) (’’میرے بعد خلافت تیس برس تک رہے گی، پھر بادہشات ہو جائے گی۔‘‘) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالیٰ سے علم پا کر یہ بھی معلوم کیا الائمۃ من قریش (امام قریش میں سے ہوں گے) یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش آئندہ واقعات کے متعلق پیش گوئیاں تھیں احکام نہ تھے، اب اگر کوئی شخص ’’الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ ثم ملک بعد ذلک‘‘ (میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر سلطنت ہو جائے گی) کو حکم قرار دے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک مغالطہ ہو گا جو وہ لوگوں کو دینا چاہتا ہے نہ کہ اصل حقیقت، بالکل یہی کیفیت الائمہ من قریش کی ہے، اس میں کیا شک و شبہ ہے کہ اس زمانہ میں قریش ہی کے اندر اعلیٰ قسم کا دماغ اور اعلیٰ درجہ کا علم و تقویٰ موجود تھا اور ان صفات حسنہ میں ان کو
[1] صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۷۹۹ تا ۳۸۰۱۔