کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 315
اور ایک دوسرے کا پتہ دینے میں سہولت بہم پہنچا سکتے ہیں اور بس، عزت و تکریم اور حکومت و برتری خدائے تعالیٰ کی جانب سے ہمیشہ مستحق عزت اور مستحق تکریم لوگوں کو عطا ہوا کرتی ہے، خواہ وہ کسی قبیلہ اور کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں ، استحقاق تکریم کے لیے تقویٰ اور ایمان شرط ہے، حکومت و خلافت کے لیے بھی خدائے تعالیٰ نے علم، صحت و قوت جسمانی (کیونکہ صحیح عقل ہمیشہ صحیح جسموں میں ہوتی ہے تقویٰ، عدل، اصلاح وغیرہ شرائط کو ضروری قرار دیا ہے، کسی قوم قبیلے کی شرط ہرگز نہیں لگائی۔ اسلام نے انصار کو مہاجرین کا بھائی بنا دیا، اسلام نے ابوجہل جیسے قریش کو باشندگان مدینہ کے نوجوانواں کا مقتول بنایا، اسلام نے بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو اشراف عرب پر فضیلت دی، اسلام نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سردار اور مطالع بنا دیا، اسلام نے بادشاہ اور غلام کو پہلو بہ پہلو ایک صف میں کھڑا کیا۔ اسلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ اگر فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خدانخواستہ چوری کا ارتکاب ہو گا اس کا ہاتھ بالکل اسی طرح کاٹا جائے گا جس طرح کسی دوسری چور عورت کا۔[1] اسلام ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا کہ لوگو! اگر تمہارے اوپر کوئی اونیٰ حبشی غلام بھی حکمران یعنی خلیفہ ہو جائے تو تم اس کی فرماں برداری کرو، اسلام ہی نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اپنی زندگی کی آخری ساعتوں میں یہ کہلوایا کہ اگر آج ابو حذیفہ کا غلام سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو اپنا جانشیں بنا دیتا۔ غرض یہ کہ اسلام نے خاندانی اور نسبی مفاخر کے بت کو پاش پاش اور ریزہ ریزہ کر دیا، یہ نہایت ہی عظیم اور گراں قدر خدمت تھی جو اسلام نے بنی نوع انسان کے لیے انجام دی، اور آج اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب اور قوانین پر فخر حاصل ہے کہ کسی سے بھی خاندانی فخر و تکبر کا مہیب بت اپنی جگہ سے نہ ہلایا گیا، لیکن اسلام نے اس کو ریزہ ریزہ کر کے اس کا غبار ہوا میں اڑا دیا۔ کس قدر حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ آج بہت سے مسلمان جو اسلام اور آئین اسلام کی پابندی کا دعویٰ کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اسلام نے حکم دیاتھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور منشاء تھا کہ خلافت صرف قبائل قریش یا قبیلہ بنو ہاشم یا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور اولاد علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ مخصوص و مختص رہے اور دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کسی حالت میں بھی خلافت کا مستحق نہ ہو سکے، اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے خدائے تعالیٰ قرآن مجید میں اس کی صاف طور پر ہدایت فرماتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے
[1] صحیح بخاری، کتاب الحدود، حدیث ۶۷۸۸۔