کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 311
ہی ضروری ہوتا تو صرف پیغمبر علیہ السلام یا فرشتے ہی دنیا میں حکمران نظر آتے اور ان کے سوا کسی کو سلطنت و حکمرانی میسر نہ آتی مگر مشاہدہ اس کی تردید کر رہا ہے، پس نتیجہ اس تمام تحقیق کا یہ نکلا کہ خلافت درحقیقت حکمرانی و سلطنت ہے، نہ کچھ اور، خلیفہ یا بادشاہ خدائے تعالیٰ خود جس کو چاہتا ہے بناتا ہے اور جب کوئی حکمران قوم من حیث القوم ظلم و فساد پر اتر آتی ہے تو اس سے خدائے تعالیٰ حکومت یا خلافت چھین لیتا ہے اور جس دوسری قوم کو چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔
اسلامی خلافت:
نوع انسان کی تمام ترقیات اور انسان کی تمام علمی و اخلاقی فضیلتیں درحقیقت نتیجہ ہیں تعلیمات انبیاء کا ، نبی دنیا میں کبھی بحیثیت معلم تشریف لائے ہیں ، مثلاً سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام اور کبھی بحیثیت بادشاہ تشریف لائے ہیں مثلاً سیّدنا داؤد علیہ السلام ، بادشاہ نبی کی شریعت بمقابلہ معلم نبی کی شریعت کے زیادہ کامل اور زیادہ عظیم الشان ہوا کرتی ہے، معلم نبی اپنی امت کے ہر فرد کی زندگی کے لیے ایک نمونہ پیش کرتا ہے، لیکن بادشاہ نبی علاوہ نمونہ پیش کرنے کے اس نمونہ پر لوگوں کو عامل بناجاتا ہے، یعنی اپنی لائی ہوئی شریعت کو نافذالفرمان قانون کا مرتبہ دے جاتا ہے۔
معلم نبی جب اپنا کام ختم کر کے اس دنیا سے جاتا ہے تو امر نبوت میں کوئی اس کا جانشیں نہیں ہوتا، نہ ہو سکتا ہے، کیونکہ نبی خدائے تعالیٰ سے حکم پا کر بندوں کو خبر پہنچاتا ہے، یعنی اس پر وحی نازل ہوتی ہے، اب اگر اس کام میں کوئی اس کا جانشیں ہو تو اس پر وحی نازل ہونی چاہیے، اور جو کام نبی کرتا تھا وہی وہ بھی کرے، اندریں صورت وہ جانشیں بجائے خود نبی کہلائے گا اور اس میں اور اس کے پیش رو میں کوئی فرق نہ ہو گا، پہلا نبی دنیا سے اسی وقت رخصت ہوتا ہے جب نبوت کے کام کو ختم کر جاتا ہے، پس اس کے لیے جانشیں ، یعنی دوسرے نبی کی مطلق ضرورت نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ جو نبی صرف معلم نبی تھے ان کا کوئی جانشیں نہیں سنا گیا، لیکن بادشاہ نبی چونکہ نبی ہونے کے علاوہ بادشاہ بھی ہوتے ہیں اس لیے ان کے فوت ہونے پر امر نبوت میں تو کوئی ان کا جانشیں نہیں ہوتا، لیکن امر سلطنت میں ضرور ان کا جانشیں ہوتا ہے، بادشاہ نبی کا جانشیں بادشاہ ہوتا ہے اور چونکہ اس نبی کا تربیت کردہ اور پورے طور پر تعلیم یافتہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کی سلطنت و حکومت کا نمونہ اور بہترین حکومت و سلطنت ہوتی ہے، یہ جانشین یا خلیفہ نبی کی لائی ہوئی شریعت میں ایک رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا، کیونکہ امر نبوت یعنی شریعت کا کام تو نبی ختم کر گیا، اس خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت و سلطنت کا کام بالکل اپنے رسول کے نمونے پر چلائے، اسی لیے اس کی حکومت و سلطنت جو حکومتوں کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہے دوسری حکومتوں