کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 310
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّہَا﴾ (البقرۃ : ۲/۳۱) فرشتوں نے سفک دم اور فساد کو خلافت الٰہیہ کے منافی سمجھا اور خدائے تعالیٰ کی تحمید و تقدیس بیان کرنے کو خلافت کا استحقاق اور علامت قرار دیا۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ نوع انسان کو محض وسعت علم ہی کے سبب تمام دوسری مخلوقات پر حکمرانی و فرمانروائی حاصل ہے اگر انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت علم حاصل نہ ہو تو ہوا کا ایک جھونکا، پانی کی ایک لہر، درخت کا ایک پتہ اور جمادات کا ایک ذرہ انسان کو عاجز کر سکتا اور اس کو فنا کے گھاٹ اتار سکتا ہے، مگر علم کی بدولت شیر، ہاتھی، دریا، پہاڑ، ہوا، آگ اور بجلی وغیرہ سب انسان کی خدمت گزاری و فرماں برداری اور راحت رسانی پر مستعد اور غلاموں کی طرح فرماں بردار نظر آتے ہیں قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب طالوت کی بادشاہت پر لوگوں نے اعتراض کیا تو خدائے تعالے نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت معترضین کو جواب دیا کہ ﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ وَ اللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ : ۲/۲۴۷) یعنی طالوت کو خدائے تعالیٰ نے بادشاہت کے لیے منتخب فرما لیا اور علم اور جسم میں وسعت عطا کی اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور حکومت عطا فرماتا ہے اور اللہ ہی صاحب وسعت اور صاحب علم ہے۔‘‘ سیدنا داؤد علیہ السلام کو حکومت و خلافت عطا فرما کر خدائے تعالیٰ نے حکم دیا کہ ﴿فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی﴾ پھر ایک جگہ فرمایا : ﴿وَ لَقَدْ اَہْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَآئَ تْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْاکَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ o ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْن﴾ (یونس : ۱۰/۱۳۔۱۴) قرآن کریم سے اسی قسم کی شاید سیکڑوں آیات تلاش کی جا سکتی ہیں ، کہ خلیفہ سے مراد حکمران اور خلافت سے مراد سلطنت ہے اور سلطنت و حکمرانی کے لیے علم، عدل، اصلاح، قوت اور رفاہ خلائق کی شرطیں لازمی ہیں جن کی ہمیشہ بادشاہوں اور خلیفوں کو ضرورت رہی ہے اور بغیر ان شرائط و صفات کے کوئی بادشاہ یا کوئی سلطان اپنی بادشاہت اور سلطنت کو قائم نہیں رکھ سکتا، یہ تمام صفات حسنہ پیغمبروں اور رسولوں کی تعلیمات سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں ، لیکن یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر ایک پیغمبر علیہ السلام بادشاہ بھی ضرور ہو، خلافت کے لیے اگر محض عبادت اور خدائے تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کا بجالانا