کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 31
مقدمہ تاریخ: علم تاریخ اصطلاحاً اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ، نبیوں ، فاتحین اور مشہور شخصیت کے حالات اور گزرے ہوئے مختلف زمانوں کے عظیم الشان واقعات و مراسم وغیرہ معلوم ہو سکیں اورجو زمانہ گزشتہ کی معاشرت، اخلاق اور تمدن وغیرہ سے واقف ہونے کا ذریعہ بن سکے۔ بعض شخصوں نے تاریخ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ انسانوں کے یکجا ہو کر رہنے کو تمدن اور اس انسانی مجمع کو مدینہ اور ان مختلف حالتوں کو جو طبعاً اس کو عارض ہوں ، واقعات تاریخ، اور پچھلوں کے پہلوں سے سن کر ان واقعات کو اکٹھا کرنے اور اپنے سے پیچھے آنے والوں کی عبرت اور نصیحت کے لیے بطور نمونہ چھوڑ جانے کو تاریخ کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ ’’تاخیر‘‘ کے جزو آخر کو مقلوب کر کے لفظ ’’تاریخ‘‘ بنایا گیا ہے اور تاخیر کے معنیٰ ہیں اولین وقت کو آخرین وقت کے ساتھ نسبت دینا مثلاً یہ بتلانا کہ فلاں مذہب، یا فلاں سلطنت یا فلاں معرکہ فلاں وقت میں ظاہر ہوا تھا جو واقعات خاص اس وقت میں ظہور پذیر ہوئے ان سب کے معلوم کرنے کا مبدء یہی وقت ہوتا ہے، غرض اسی طرح تاریخ کی تعریف بیان کرنے میں بڑی بڑی موشگافیاں کی گئی ہیں ، لیکن خلاصہ اور حاصل مطلوب سب کا وہی ہے جو اوپر سب سے پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اس مذکورہ خلاصہ کا اور بھی خلاصہ کرنا مقصود ہو تو یوں کہہ سکتے ہیں ، جو حالات و اخبار بقید وقت لکھے جاتے ہیں ان کو تاریخ کہتے ہیں ۔ تاریخ کی ضرورت : تاریخ ہم کو بزرگوں کے حالات سے واقف کر کے دل و دماغ میں ایک بابرکت جوش پیدا کر دیتی ہے، انسانی فطرت میں ایک خاص قسم کی پیاس اورخواہش ہے جو ممالک کی سیاحی، باغوں کی سیر اور کوہ و صحرا کے سفر پر آمادہ کر دیتی ہے یہی فطری تقاضا ہے جو بچوں کو رات کوچڑے چڑیا کی کہانی اور جوانوں کو طوطا مینا کی داستان سننے پر آمادہ کرتا ہے، اوریہی تقاضا ہے جو ﴿فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (’’پس تم اہل علم سے پوچھ لو اگر تمہیں خود معلوم نہ ہو۔‘‘ (النحل : ۱۶ : ۴۳)…) کے حکم کی تعمیل اور تاریخی کتابوں کے مطالعہ کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے، اس فطری تقاضے پر نظر فرما کر فطرتوں