کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 309
میں خلیفہ سے مراد حکمران ہے کچھ اور نہیں ۔ ایک جگہ قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ ﴿ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ﴾ (الانعام: ۶/۱۶۵) یہاں نوع انسان کی اس عام خلافت میں تخصیص موجود ہے، مدعایہ ہے کہ تمہاری قوم کو حکمران قوم بنایا، یعنی دوسری انسانی قومیں تمہاری محکوم ہیں اور تم حکمران قوم ہو، یہاں بھی وہی خلیفہ کا لفظ موجود ہے جس کے معنی بجز حکمرانی کے اور کچھ نہیں ، پھر ایک جگہ فرمایا کہ ﴿یَآدَاؤُدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ﴾ یہاں ایک شخص یعنی سیّدنا داؤد علیہ السلام کی حکومت و سلطنت کا ذکر ہے، یہاں بھی خلیفہ کا لفظ موجود ہے جس کے معنی بادشاہ یا شہنشاہ[1] کے سوا اور کچھ نہیں ، سیّدنا داؤد علیہ السلام کی اسی حکومت و سلطنت کے متعلق دوسری جگہ فرمایا : ﴿وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ﴾ (ہم نے ان کی سلطنت کو مضبوط کیا) پھر خاص مسلمانوں اور بالخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت فرمایا ﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ (النور : ۲۴/۵۵) یعنی جس طرح زمین میں ہم نے دوسرے لوگوں کو حکمران بنایا تھا اسی طرح تم میں سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں سے) جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجا لائے ان کو زمین میں حکمرانی عطا کی جائے گی۔ استحقاق خلافت: قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ زمین پر حکومت و سلطنت یعنی خلافت کا عطا کرنا یا حکومت و سلطنت کا کسی سے چھین لینا خدائے تعالیٰ ہی کا خاص کام ہے، اگرچہ ہر ایک کام کا فاعل حقیقی خدائے تعالیٰ ہی ہے، لیکن اس نے خلافت و سلطنت کے عطا کرنے کا فاعل ہر جگہ اپنے آپ ہی کو ظاہر فرمایا ہے اور اس فعل کو استعارہ بھی کسی دوسرے کی طرف نسبت نہیں کیا،ایک جگہ صاف طور پر فرمایا: ﴿قُلِ الّٰلہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآء﴾ (آل عمران : ۳/۲۶) اب دیکھنے اور غور کرنے کے قابل بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کن لوگوں کو خلافت یا حکومت عطا فرماتا ہے، یعنی جو لوگ خلافت حاصل کرتے ہیں ان کے امتیازی نشانات کیا ہیں آدم علیہ السلام یا بنی آدم کو جو زمینی مخلوقات پر حکمرانی حاصل ہے اس کا سبب قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم ہے ﴿وَ
[1] شہنشاہ صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔ حدیث میں منع کیا گیا ہے کہ کسی بادشاہ وغیرہ کو شہنشاہ کہا جائے۔