کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 308
تیسرا باب:
خلافت راشدہ
خلافت اور خلیفہ:
خلیفہ کے معنی جانشیں اور خلافت کے معنی جانشینی ہیں ، لیکن اصطلاح شرع اور اصطلاح مؤرخین میں خلیفہ کے معنی بادشاہ یا شہنشاہ کے قریب قریب مراد لیے جاتے ہیں ، ایک مؤرخ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ سلسلہ تاریخ اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اوّل کے واقعات خلافت شروع کرنے سے پہلے لفظ خلیفہ یا خلافت کی بحث میں اپنا اور قارئین کرام کا وقت صرف کرے، لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا مسئلہ ایک اختلافی مسئلہ بن کر دو قوموں میں مخالفت کا باعث بن گیا ہے، اور اس مخالفت نے مؤرخین ، تاریخی روایات، تاریخی تصانیف اور مورخین کے ادائے بیان پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک واقعہ نگار کا کام کسی قدر دشوار ہو گیا، نیز تاریخ اسلام لکھنے والے کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ قارئین تاریخ کو کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے مسئلہ خلافت کے متعلق اپنا مسلک اور عقیدہ پہلے بیان کر دے، اس کے بعد خلافت راشدہ کے حالات و واقعات بیان کرے۔
قرآن کریم میں جہاں جہاں خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ الارض کا لفظ بھی ضرور آیا ہے اور ﴿اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً﴾ سے ثابت ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام یعنی بنی آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، بنی آدم کا اشرف المخلوقات ہونا ظاہر اور نوع انسان کا زمینی مخلوقات پر حکمران ہونا عیاں ہے، پس یہ انسان کی خلافت جو زمین کے ساتھ مخصوص ہے یقینا خلافت الٰہیہ ہے اور نوع انسان خلیفۃ اللہ، لیکن خدائے تعالیٰ کی ذات بے ہمتا جو سب کی خالق و مالک ہے اس سے بہت اعلی وارفع ہے کہ من کل الوجوہ کوئی مخلوق چاہے وہ اشرف المخلوقات ہی کیوں نہ ہو اس کی جانشیں یعنی خلیفہ ہو سکے، پس نوع انسان کی خلافت الٰہیہ من وجہ تسلیم کرنی پڑے گی اور وہ بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ تعالیٰ تمام موجودات، مخلوقات کا حقیقی حکمران اور شہنشاہ ہے اسی طرح زمین میں صرف نوع انسان ہی تمام دوسری مخلوقات پر بظاہر حکمران نظر آتی ہے۔ اور ہر چیز اور ہر زمینی مخلوق سے اپنی فرماں برداری انسان کرا لیتا ہے ہے پس ثابت ہوا کہ ﴿اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً﴾