کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 304
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سچ بولتا ہے اور اس نے کبھی غلط بیانی نہیں کی۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریف پردہ نشیں کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے اور جب کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہوتی تھی تو ہم لوگ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے سمجھ جاتے تھے۔[1] اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی بات اچھی معلوم نہ ہوتی تو اسے اشارے کنارے سے آگاہ فرما دیتے تھے تاکہ وہ خفیف نہ ہو لیکن کلام الٰہی اور اعلاء کلمۃ الحق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے۔[2] میانہ روی: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ناپسندیدہ بات معلوم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا نام لے کر تخصیص کے ساتھ کچھ نہ فرماتے، بلکہ یوں فرماتے کہ وہ کیسے آدمی ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشتر اوقات خاموش رہتے تھے اور بلا ضرورت بات نہیں کرتے تھے۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام صاف اور واضح ہوتا تھا، نہ اتنا طویل کہ اس میں کوئی فضول اور غیر ضروری بات ہو، نہ اتنا مختصر کہ کوئی کام کی بات رہ جائے یا سمجھ میں نہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال بھی نہایت معتدل تھی، نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سست چلتے تھے کہ ساتھ والوں پر گراں ہو، نہ اس قدر تیز چلتے تھے کہ اس سے تکان اور سستی مترشح ہو، غرض اعتدال اور میانہ روی آپ کی ہر ایک بات سے ہویدا تھی۔ خوش طبعی: آپ کبھی خوش طبعی بھی فرما لیتے تھے، مثلاً ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ایک اونٹ دینے کا وعدہ کیا، جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تجھے اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں ، یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اونٹ اونٹنی کے بچے نہیں ہوتے تو اور کس کے بچے ہوتے ہیں ؟[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش طبعی کی راہ سے بجائے اونٹ کے اونٹنی کا بچہ کہا تھا، وہ سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے سے کم عمر بچہ کے لیے حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش طبعی فرماتے تھے، لیکن خوش
[1] صحیح بخاری، کتاب الأدب، حدیث ۶۱۰۲۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب کثرۃ حیائہ صلي الله عليه وسلم ۔ [2] متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الفضائل، حدیث ۵۸۱۸۔ [3] شرح السنہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الفضائل، حدیث ۵۸۲۶۔ [4] جامع ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی المزاح۔