کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 303
چوری کرتا تھا تو اسے سزا دیتے تھے، خداگواہ ہے کہ اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کی ہوتی تو یقینا میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔[1] بے تکلفی: ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میری تعریف میں زیادہ مبالغہ مت کرو جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہا السلام کو زیادہ بڑھا دیا، میں تو اللہ کے بندوں میں سے ایک ہوں ، اس لیے مجھے عبداللہ و رسول کہا کرو۔[2] ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو سب صحابہ رضی اللہ عنہم تعظیماً کھڑے ہو گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسے عجمی آپس میں ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اس طرح تم کو کھڑا نہ ہونا چاہیے۔ (شفاء قاضی عیاض ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم میں بالکل ملے جلے رہتے تھے اور مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی تھی وہیں بیٹھ جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوکروں کے کام میں شریک ہو جاتے اور ان کو اپنے پاس بٹھا لیتے تھے، بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی شخص یہودی کا مقروض ہوا اور یہودی نے تنگ طلبی کی، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس آیا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ ہوا تو خود اس کا قرض دے دیا، ورنہ اس یہودی کے پاس خود تشریف لے گئے اور اس سے کچھ اور مہلت دینے کے لیے کہا، مگر یہودی لوگ اس کا بھی کچھ خیال نہیں کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر ادھر کوشش کر کے جس طرح ممکن ہوتا تھا ادائے قرض کا بندوبست کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھوکوں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ، قائم اللیل اور صائم النہار کے برابر درجہ رکھتا ہے۔ ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت پانے کا عمل کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدق، کیونکہ جب آدمی سچا ہوتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے تو نور ایمان پیدا ہوتا ہے، اور جب ایمان دار ہوتا ہے تو جنت میں داخل ہوتا ہے، ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار! سچے رہو خواہ تم کو سچائی میں ہلاکت ہی کیوں نہ نظر آئے، کیونکہ بلاشبہ نجات اسی میں ہے، مکہ سے بدر کی طرف آتے ہوئے راستے میں اخنس بن شریف نے ابوجہل سے سے کہا کہ اے ابوالحکم میں تجھ سے ایک بات پوچھتا ہوں ، اس جگہ ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا شخص ہماری بات سننے والا نہیں ہے، تو مجھے سچ سچ بتا دے کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچا ہے یا جھوٹا، ابوجہل نے جواب دیا کہ واللہ! بے شک
[1] صحیح بخاری، کتاب الحدود، حدیث ۶۷۸۸۔ [2] صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، حدیث ۳۴۴۵۔