کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 302
خودلی اور سیدھی اپنے ہمراہی کودی۔ انہوں نے عرض کیا کہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں لی اور فرمایا کہ جو شخص کسی کی صحبت میں رہتا ہے خواہ گھڑی بھر ہی کیوں نہ ہوقیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ حق صحبت بجا لایا یا نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی اور ایک بشر نامی منافق مسلمان کے درمیان کچھ جھگڑا تھا، وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لیے آئے، آپ نے دونوں کے حالات تحقیق کر کے یہودی کو حق بجانب پایا اور یہودی کے حق میں فیصلہ صادر کیا، جب دونوں باہر نکلے تو بشر نے کہا کہ یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا، چلو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں ، چنانچہ دونوں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، یہودی نے آتے ہی بیان کر دیا ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے، انہوں نے میرے حق میں فیصلہ صادر فرمایا، مگر اس نے نہیں مانا، اور آپ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا ہے کہ آپ جو فیصلہ کریں گے مانا جائے گا،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بشر سے یہودی کے اس بیان کی تصدیق کی، اس نے کہا ہاں یہ سچ کہتا ہے، ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تھے مگر میں ان کے فیصلہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو ترجیح دیتا ہوں ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم دونوں ذرا ٹھہرو میں ابھی فیصلہ کیے دیتا ہوں ، یہ کہہ کر وہ اندر گئے اور تلوار لا کر منافق بشر کی گردن اڑا دی اور کہا کہ جو شخص مسلمان ہو کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو نہ مانے میں اس کا فیصلہ اس طرح کرتا ہوں ، اس پر اس کے ہمراہی منافقوں نے بہت غل مچایا، مگر خدائے تعالی نے بذریعہ وحی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کی تائید فرمائی، اور کہا جاتا ہے کہ اسی دن سے ان کا لقب فاروق رضی اللہ عنہ ہو گیا۔[1] انصاف پسندی: فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے کہ بنی مخزوم میں سے ایک عورت فاطمہ بنت الاسود چوری کے جرم میں پکڑی گئی، ثبوت جرم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، شرفائے قریش کو یہ عار ناگوار گزری، انہوں نے چاہا کہ سفارش کر کے اس عورت کو سزا سے بچا لیں ، مگر سفارش کرنے کی جرات نہ ہوئی، آخر سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کہہ سن کر آمادہ کیا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسامہ ! تم اللہ کی مقرر کردہ سزا (حد) میں سفارش کو دخل دیتے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے مجمع میں تقریر فرمائی کہ اے لوگو! تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے تباہ ہو گئیں کہ جب ان میں کوئی خاندانی شخص چوری کرتا تھا تو لوگ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور
[1] الدر المنثور فی تفسیر الماثور ۲ : ۱۸۱ بحوالہ الموسوعۃ القضائیۃ (مترجم)، صفحہ ۱۵۴۔