کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 301
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ انصار میں کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دے دیا، انہوں نے اور مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اور دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا سب دے ڈالا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ آتا ہے اسے تم لوگوں سے بچا کر جمع نہیں رکھتا، اور بلاشبہ جو شخص اللہ سے یہ مانگتا ہے وہ اسے سوال کی ذلت سے بچائے تو اللہ اسے ذلت سے بچا لیتا ہے، اور جو استغنا چاہتا ہے اسے غنی کر دیتا ہے، جو شخص صبر اختیار کرتا ہے اللہ اسے صابر بنا دیتا ہے، اور کسی شخص کو عطایائے الٰہی میں سے کوئی عطیہ صبر سے زیادہ اچھا نہیں دیا گیا۔[1] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اگر میرے پاس کوہ احد کے برابر سونا ہو تب بھی مجھے خوشی اس وقت ہو کہ میں تین دن گزرنے سے پہلے ہی وہ سب تقسیم کر دوں اور میرے پاس سوائے اس کے جومیں ادائے قرض کے لیے اٹھا رکھوں اور باقی نہ رہے۔ بعض اوقات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا اور کوئی حاجت مند آ جاتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرض تک لے کر اس کی حاجت روائی میں تامل نہ ہوتا تھا اور بالعموم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی قسم کے قرض تھے، ورنہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو قرض لے کر پورا کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بے نیازتھے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا میرا اونٹ تھک کر پیچھے رہ گیا، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیوں جابر کیا حال ہے، میں نے عرض کیا کہ میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اونٹ کے ایک تسمہ مارا تو وہ خوب تیز چلنے لگا، پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے چلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تم یہ اونٹ فروخت کرتے ہو، میں نے کہا ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھ سے خرید لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے اور میں ذرا دن چڑھے پہنچا، میں نے اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اونٹ کو چھوڑ دو اور مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، جب میں نماز سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اونٹ کی قیمت ادا کر دو، میں قیمت لے کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پھر بلایا میں ڈرا کہ میرا اونٹ واپس کر دیا جائے گا، مگر میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ بھی لے جاؤ اور اس کی قیمت تمہاری ہو چکی، اسے بھی اپنے ہی پاس رہنے دو۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگل میں تشریف لیے جاتے تھے ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کھود کر دو مسواکیں نکالیں ، ایک سیدھی، تھی ایک ٹیڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیڑھی
[1] صحیح بخاری، کتاب زکوٰۃ، حدیث ۱۴۶۹۔ صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل التعفف و الصبر۔