کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 300
طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا کہ اے محمد! اللہ کے اس مال میں سے جو تیرے پاس ہے میرے دونوں اونٹوں پر بھی کچھ لاد دے، کیونکہ اس میں سے جو کچھ تو مجھے دے گا وہ کچھ تیرا یا تیرے باپ کا مال نہیں ہے، یہ تلخ اور سخت کلام سن کر اوّل تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرط حلم و کرم سے خاموش رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک مال تو اللہ تعالی کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں مگر تو یہ تو بتا کہ تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے، اس نے کہا نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیوں نہیں ؟ اس نے کہا کیونکہ تو برائی کے عوض برائی نہیں کرتا، یہ سن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے ایک اونٹ پر جو اور ایک اونٹ پر کھجوریں لاد کر دے دو۔[1] ایک مرتبہ ایک یہودی زید بن سعنہ اسلام لانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے کچھ قرض کا تقاضہ کرنے آیا، اور بہت ہی درشتی سے بولا کہ تم اولاد عبدالمطلب بڑے ہی نادہندہ اور وعدہ خلاف ہو، اس کی اس بد زبانی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مسکراتے ہی رہے، مگر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جھڑک کر ایسی بیہودہ گوئی سے روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا، کہا اے عمر! تو نے ہم دونوں سے وہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جو ہونا چاہیے تھا، مناسب یہ تھا کہ تم اسے نہ جھڑکتے بلکہ حسن طلب اور نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی نصیحت کرتے اورمجھ سے ایفائے وعدہ اور ادائے قرض کے لیے کہتے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا قرض ادا کر دو اور جھڑکنے کے معاوضہ میں بیس صاع یعنی ڈیڑھ من جو اور دے دو، حالانکہ میعاد قرض میں ابھی تین دن باقی تھے اور وہ یہودی قبل از انقضائے میعاد ہی تقاضا کرنے آ گیا تھا، اس حلم، نیک طینتی اور خوش خوئی کا یہ اثر ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے یہاں گئے، جس کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دودھ پلاتی تھیں ، اس وقت ابراہیم بالکل جاں بلب تھے، ان کی حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آب دیدہ دیکھ کر سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے کہا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بے صبری کا اظہار فرماتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابن عوف ! یہ آنسو رحم و شفقت کی وجہ سے ہیں ، بے صبری و ناشکری کی وجہ سے نہیں ہیں ، اور بے شک دل رنج کرتا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں لیکن ہم کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو رضائے الٰہی کے خلاف ہو۔[2]
[1] صحیح بخاری، کتاب الادب، حدیث ۶۰۸۸۔ صحیح مسلم، کتاب زکوٰۃ باب اعطاء المؤلفۃ۔ [2] صحیح بخاری، کتاب الجنائز، حدیث ۱۳۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمۃ الصبیان۔