کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 299
پرسی کے لیے شہر کے دور دراز محلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جاتے تھے۔[1] جس کسی سے ملتے پہلے خود سلام کرتے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کھینچنے سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کا نام نہ لیتے، بلکہ کسی کنیت سے مخاطب کرتے اور محبت آمیز پسندیدہ ناموں سے ان کو یاد کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا قطع کلام نہیں کرتے تھے، البتہ اگر کوئی نازیبا بات کہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے منع فرما دیتے یا اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے تاکہ وہ خود ہی رک جائے۔
کمال خوش خلق:
سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے کسی شخص کو جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوش خلق نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔[2]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’اشجع الناس‘‘ تھے۔[3] ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اہل مدینہ یکایک گھبرا اٹھے، جیسے کوئی دشمن چڑھ آئے اس قسم کا شور اٹھا، لوگ اس آواز کی جانب چلے، مگر ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف سے واپس آتے ہوئے ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے گھوڑے کی ننگی پشت پر سوار ہو کر ادھر تشریف لے گئے تھے، آپ نے لوگوں سے کہا گھبراؤ مت کوئی خوف و اندیشہ کی بات نہیں ہے۔براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ حنین کے دن لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رجز پڑھ رہے تھے: ((انا النبی لا کذب، انا ابن عبدالمطلب))( میں نبی ہوں ، اس میں کوئی (شک اور) جھوٹ نہیں ۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔)… اس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر اور شجاع کوئی نہیں دیکھا گیا، جب لڑائی بہت تند اور تیز ہوئی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ ڈھونڈتے، ہم میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر وہ سمجھا جاتا جو میدان جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کھڑا رہ سکتا تھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک موٹے کنارے کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، ایک بدوی نے چادر کا کنارہ پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ چادر کے کنارے کی رگڑ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے اور گردن پر نشان پڑ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی
[1] صحیح بخاری، کتاب الادب، حدیث ۶۲۰۷۔
[2] ایضاً، حدیث ۶۱۱۴۔
[3] ایضاً، حدیث ۶۰۳۳۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شجاعۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔