کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 298
انہوں نے فرمایا کہ ادھوڑی کا جس میں کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی یہی سوال سیّدنا حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھا جسے ہم دوہرا کر دیا کرتے تھے، ایک رات میں نے خیال کیا کہ اس کی چار تہیں کر دوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ آرام ملے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ رات تم نے میرے لیے کیا بچھایا تھا، میں نے کہا وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹاٹ تھا، مگر اس کی چار تہیں کر دی تھیں ، تاکہ آپ کو زیادہ آرام ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ، تم اسے جیسا پہلے تھا ویسا ہی کر دو، اس نے رات مجھے نماز شب سے باز رکھا۔[1] وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے ورثاء کو میرے تر کے میں روپیہ پیسہ وغیرہ نقدی کچھ نہ ملے، ایک یہودی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ بعوض تیس درہم گروی رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زر نقد اتنا نہ تھا کہ اس کو چھڑا لیتے۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکہ میں اپنے ہتھیار، ایک خچر اورایک زرہ چھوڑی۔[3] ان چیزوں کی نسبت بھی یہی ارشاد تھا کہ خیرات کر دی جاتیں ، کیا وہ لوگ اندھے نہیں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ ذاتی اغراض ، نفسانی مقاصد، جاہ طلبی، حصول زر اور ملک گیری کے لیے اپنی قوم پر تلوار اٹھائی تھی؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں آٹھ برس کا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور برابر دس برس تک خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ،رہا مگر اس طویل مدت میں کبھی ایک مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہیں کی اور نہ یہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا اور وہ کام کیوں نہ کیا۔[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کبھی کوئی فحش اور بیہودہ کلمہ نہیں نکلا۔[5] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مشرکین کے لیے بددعا کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں بیہودگی اور لغویت بالکل نہ تھی۔[6] آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو اپنی گود میں بٹھا لیتے اور ان سے کھیلا کرتے۔ مریضوں کی عیادت اور مزاج
[1] زاد المعاد (مترجم) ۱:۱۶۷ میں ایک مختصر روایت موجود ہے لیکن حفصہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ کے بغیر۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۶۷۔ [3] بخاری، کتاب الوصایا، حدیث ۲۷۳۹۔ [4] صحیح بخاری، کتاب الادب، حدیث ۶۰۳۸۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب حسن خلقہ صلي الله عليه وسلم ۔ [5] صحیح بخاری، کتاب الادب، حدیث ۶۰۳۱۔ [6] صحیح بخاری، کتاب الادب، حدیث : ۶۰۳۲۔