کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 294
امیر ہو گا۔[1] ایک قریش میں سے امر ہو گا) یہ خبر سن کر سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مع ایک گروہ مہاجرین کے اس نامناسب حالت کی اصلاح اور روک تھام کے لیے سقیفہ بنو ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ و عباس رضی اللہ عنہ و اسامہ رضی اللہ عنہ و فضل بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے موافق تجہیز و تکفین کے اہتمام پر متعین فرما گئے، سیّدنا علی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا، سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں لڑکے کروٹ بدلواتے جاتے اور سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ پانی ڈالتے جاتے تھے۔ نماز جنازہ و تجہیز و تکفین: جب غسل دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز سے فراغت ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے، بعض کہتے تھے کہ مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا جائے، بعض کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں ، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ دفن کیا گیا ہے جہاں اس کی روح قبض کی گئی ہے۔[2] لوگوں نے یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرش کو جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تھا اٹھا دیا اور اسی جگہ قبر کھودی گئی، قبر بغلی کھودی گئی، جب قبر تیار ہو گئی تو جنازہ کی نماز پڑھنی شروع ہوئی، اوّل مردوں نے پھر عورتوں نے پھر لڑکوں نے نماز جنازہ پڑھی، کسی نے کسی کی امامت نہ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی شدت اور پھر انتقال کا حال سن کر سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور ان کے تمام لشکر والے مدینے میں چلے آئے تھے اور فوجی علم حجرہ مبارک کے دروازے پر کھڑا کر دیا گیا تھا، نماز جنازہ چونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر تیار ہوئی تھی پڑھی گئی، لہٰذا ظاہر ہے کہ تمام مسلمان جو مدینے میں موجود تھے ایک مرتبہ نماز نہ پڑھ سکتے تھے، پھر یہ نماز جنازہ کسی کے زیر امامت بھی ادا نہیں ہوئی بلکہ الگ الگ ادا کی گئی، لہٰذا یہ کسی طرح ممکن ہی نہ تھا کہ تمام مسلمان جو مدینہ میں موجود تھے تمام لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ ، تمام عورتیں ، تمام لڑکے، تمام غلام گروہ در گروہ حجرہ میں آ آ کر نماز جنازہ پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کے بعد فوراً ہی دفن کر دیے جاتے، نماز جنازہ کا سلسلہ یقینا اگلے دن تک برابر جاری رہا ہو گا اور اس لیے اس پر ذرا بھی تعجب نہیں ہونا
[1] سقیفہ بنی ساعدہ کے اس واقعہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم حدیث ۳۶۶۸۔ سیرت ابن ہشام، ص ۶۱۱ تا ۶۱۵۔ [2] جامع ترمذی، ابواب الجنائز، باب ۳۲، صححہ الالبانی رحمہ اللہ ۔ سیرت ابن ہشام، ص ۶۱۷۔