کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 293
مقدر فرمایا تھا، اور اب ہرگز اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت نہ آئے گی، پھر انا للّٰہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے باہر آئے۔[1] سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی استقامت: سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو وہی باتیں کہتے ہوئے سنا اور ان سے کہا کہ خاموش رہو، مگر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مطلق پروا نہ کی، تو سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے علیحدہ کھڑے ہو کر مخاطب کیا، جس قدر آدمی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع تھے وہ سب ان کو تنہا چھوڑ کر سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے، سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بعد حمدو ثناء کے فرمایا ’’لوگو! اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتے تھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو گئے، اور اگر اللہ تعالی کی پرستش کرتے تھے تو اللہ تعالی بے شک زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا، ’’پھر انہوں نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی: ﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَ سَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ﴾ (آل عمران : ۳:۱۴۴) ’’اور نہیں تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مگر رسول، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں ، پس کیا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مر جائیں یا مارے جائیں تو تم لوگ اپنی پرانی حالت کفر کی طرف لوٹ جاؤ گے، اور جو شخص حالت کفر کی طرف لوٹ جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کو جزا دے گا۔‘‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے قرآن مجید کی ان آیات کا سننا تھا کہ یکایک مجمع سے وہ حیرت کا عالم دور ہو گیا ، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پہلے میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر مطلق خیال نہ کیا، لیکن جس وقت انہوں نے یہ آیت پڑھی تو مجھ کو یہ معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی ہے، مارے خوف کے میرے پاؤں تھرا گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔[2] سقیفہ بنی ساعدہ: اس کے بعد خبر پہنچی کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار مجتمع ہیں اور وہ سب سعد بن عبادہ کی بیعت کیا چاہتے ہیں اور بعض انصار یہ بھی کہتے ہیں ۔ ((منا امیر و من قریش امیر)) (ایک ہم میں سے
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۵۲ و ۴۴۵۳۔ سیرت ابن ہشام، صفحہ ۶۰۹ و ۶۱۰۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۵۴۔ سیرت ابن ہشام، ص ۶۱۰۔